بھارت:سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ تیز
21 جولائی 2020ورا ورا راو، ارون فریررا، گوتم نولکھا، ورنون گونزالویز، شوما سین، اکھل گوگوئی، ڈاکٹر کفیل خان اور کشمیری رہنما الطاف حسین جیسے درجنو ں سیاسی قیدی ملک کی مختلف جیلوں میں بند ہیں لیکن کورونا وائرس کا خطرہ اور ان لوگوں کو لاحق مختلف بیماریوں کے باوجود حکومت انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہی ہے۔
79سالہ تیلگو شاعر ورا ورا راو گزشتہ دو برس سے حراست میں ہیں۔ اس دوران انہوں نے کئی مرتبہ اپیل کی لیکن اب تک ضمانت نہیں مل سکی ہے۔ اب جبکہ وہ کورونا پازیٹیو پائے گئے ہیں، انہیں رہا کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ راو نے پہلے بھی اپنی ضمانت کی عرضی میں کہا تھا کہ عمر کی وجہ سے انہیں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ لیکن ان کی دلیل کو نظر انداز کردیا گیا۔ مئی میں ان کی طبیعت بگڑ گئی تو اسپتال میں داخل کرایا گیا تاہم چند دنوں کے بعد اسپتال سے رخصت دے کر دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔
جولائی کے اوائل میں ایک بار پھر ان کی طبیعت بگڑ گئی اور اسپتال میں داخل کرانا پڑا ہے۔ لیکن راو کے قریبی افراد اور صحافیوں نے دعوی کیا ہے کہ اسپتال میں ان کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
کشمیری رہنما الطاف احمد شاہ
کشمیری رہنما 63 سالہ الطاف احمد شاہ 2017 سے دہلی کے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ الطاف احمد علیحدگی پسند کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کے داماد ہیں۔ الطاف احمد کی بیٹی روا شاہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ان کے والد ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور خدا نخواستہ اگر وہ کورونا وائرس سے متاثر ہوگئے تو پتہ نہیں کیا ہوگا۔
روا شاہ لکھتی ہیں کہ صفائی ستھرائی اور صحت کی دیکھ بھال کے لحاظ سے ایشیا کی سب سے بڑی جیل کی حالت انتہائی بدتر ہے۔ قیدیوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ کئی کشمیری قیدیوں کو لاحق صحت کے انتہائی تشویش ناک معاملات کو نظر انداز کردیے جانے کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں۔”کورونا وائرس کی وبا نے سینکڑوں کشمیری سیاسی قیدیوں کے خاندان والوں کو انتہائی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ انہیں یہ ڈر ستا تا رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنے عزیزوں کو دیکھ بھی نہ پائیں۔"
عمر دراز قیدیوں کورہا کردیا جانا چاہیے
بھارت کے سابق انفارمیشن کمشنر سیلیش گاندھی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں زیر سماعت قیدیوں کو طویل عرصے تک جیلوں میں رکھنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ راو کا معاملہ ان کی عمر اور ان کی حالت کی وجہ سے زیادہ ہی سنگین ہے۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ ”دہلی کے اپہار سنیما ہال میں آتش زدگی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے سنیما گھر کے مالکان کو قصور وار قرار دینے کے باوجود ان کی عمر کی بنا پر گرفتار کرنے سے منع کردیا تھا۔ راو اور دیگر عمر دراز لوگوں کو بھی اسی بنیاد پر رہا کردیا جانا چاہیے۔"
لیکن حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے آئی ٹی سیل کے سابق قومی کنوینر ونیت گوینکا کہتے ہیں کہ راو پر ملک کو توڑنے اور عوام کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش جیسے سنگین الزامات ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں ”کیا ایسے شخص کے ساتھ قانون کو الگ سے پیش آنا چاہیے؟" گوینکا کا تاہم کہنا تھا کہ ملک میں اس بات پر بحث ضرور ہونی چاہیے کہ جیل میں قید خواہ کوئی چورہو، جنسی زیادتی کا قصوروار ہو یا قاتل ہو، کیا اسے کورونا پازیٹیو پائے جانے کے بعد بھی جیل میں رکھا جانا چاہیے یا نہیں؟
بیشتر سیاسی قیدی غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق سیاہ قانون (یو اے پی اے) یا قومی سلامتی قانون کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔ یواے پی اے قانون بنیادی طور پر دہشت گردی اور ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرہ پہنچانے والی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ تاہم حکومتیں اپنے مخالفین کو خاموش کرنے اور دوسرے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بھی اس قانون کا غلط استعمال کرتی رہی ہیں۔
کورونا کی آڑ میں گرفتاریاں
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے حکومت کو سیاسی قیدیوں کو نشانہ بنانے اور انہیں پریشان کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کردیا ہے۔ تفتیشی ایجنسیاں اور پولیس حکومت مخالف سیاسی قیدیوں کی ضمانت کی مخالفت کرتی ہیں اور عدالت بھی ان کے دلائل کو تسلیم کرلیتی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ گوکہ بھارت میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن سیاسی نوعیت کے کیسز میں بھی قیدیوں کی عمر، ان کی طبی حالت، کورونا سے متاثر ہونے کے خطرے کے باوجود بھی ضمانت کی مخالفت کرنا تشویش کی بات ہے۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکی بار ایسوسی ایشن جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے مودی حکومت سے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیلیں کی ہیں۔ گزشتہ ماہ نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت یافتہ دانشور سمیت دنیا بھر کے تقریباً ایک سو دانشوروں نے بھارتی صدر اور بھارتی سپریم کورٹ کو ایک درخواست بھیج کر سیاسی قیدیو ں کو رہا کرنے کی اپیل کی تھی۔
سپریم کورٹ نے مارچ کے اواخر میں حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے مدنظر جیلوں میں بند قیدیو ں کو پیرول پر رہا کرنے پر غور کرے۔ عدالت نے کہا تھا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کے سبب سوشل ڈسٹنسنگ برقرار رکھنا مشکل ہے لہذا حکومت کو انسانی رویہ اپنانے پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن مرکزی اور متعدد ریاستی حکومتیں عمردراز سیاسی قیدیوں کو بھی رہا کرنے کے خلاف ہیں۔