1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'اس طرح کا بیان نیپال کی توہین ہے' نیپالی وزیر دفاع

26 مئی 2020

نیپال کے وزیر دفاع نے اپنے ملک کے حوالے سے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو نیپال کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات نیپال کی تاریخ کو نظرانداز کر کے ہی دیے جاسکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3clXL
Indien Treffen Modi und Oli
تصویر: picture alliance/AA/I. Khan

ایک ایسے وقت جب بھارت اور نیپال کے درمیان سرحدی تنازع کے حوالے سے تعلقات کشیدہ ہیں، نیپال نے بھارتی آرمی چیف منوج مکند ناروانے کے بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک فوجی سربراہ کو سیاسی نوعیت کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ نیپالی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے نیپال کی توہین کی ہے۔

بھارت کے بعض میڈیا اداروں کے مطابق نیپال کے وزیر دفاع ایشور پوکھریال نے ایک مقامی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے بھارتی فوجی سربراہ کے بیان پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان سے نیپالی نژاد بھارت کے گورکھا فوجیوں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ بیان نیپال کے لیے انتہائی توہین آمیز ہے۔ یہ بیان نیپال کی تاریخ، اس کی معاشرتی خصوصیات اور آزادی کو نظرانداز کر کے توہین کرنے کے لیے ہے۔ اس سے، بھارتی آرمی چیف نے نیپال کے ان گورکھا فوجیوں کے احساسات کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے، جنہوں نے بھارت کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اوراب بھارتی جنرل کے لیے گورکھا فوجیوں کے سامنے سر اونچا کر کے کھڑا ہونا بھی آسان نہیں ہوگا۔''

نیپالی وزیر دفاع نے یہ باتیں مقامی اخبار 'دی رائزنگ نیپال' سے بات چیت کے دوران کہیں۔ بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند ناروانے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نئے راستے کی تعمیر کے حوالے سے نیپال '' کسی دوسر کے کہنے پر'' اعتراضات کر رہا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ کا اشارہ واضح طور پر چین کی طرف تھا۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اس طرح کا بیان نیپال کی خودمختاری پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ 

بھارت نے پہاڑی ریاست اترا کھنڈ میں نیپال اور چین کی سرحدسے متصل متنازعہ علاقے میں اسّی کلو میٹر طویل ایک نئی سڑک تعمیر کی ہے۔ یہ راستہ اترا کھنڈ کو تبت کی سرحد پر لیپو لیکھ درّے سے جوڑتا ہے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ لیپو لیکھ درہ اس کا اپنا ہے جبکہ بھارت نیپال کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں بھارت نے جب اس سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال نے یہ کہہ کر سخت اعتراض کیا تھا کہ یہ اس کی سرزمین پر بنایاگیا ہے اور وہ اپنی ایک انچززمین بھی بھارت کو دینے کے حق میں نہیں ہے۔

Nepal Kathmandu | Napelasen warten auf die Ankunft von Xi Jinping
گزشتہ چند برسوں میں چین اور نیپال کے درمیان رشتے کافی مضبوط ہوئے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/N. Shrestha

نیپال نے حالیہ دنوں میں اس روڈ کی تعمیر کے رد عمل میں بھارت مخالف کئی سخت بیانات دیے اور پارلیمان میں بحث کے دوران نیپالی وزیر اعظم نے بھارت پر سخت الفاظ میں تنقید کی تھی۔ اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ہی بھارتی آرمی نے اشارتاًیہ بیان دیا تھا کہ نیپال یہ سب کچھ چین کے کہنے پر کر رہا ہے۔

نیپالی وزیر دفاع نے بھارتی فوجی سربراہ کے اس بیان پر کہا، ''فوجی سربراہ کی حیثیت سے سیاسی بیان بازی کس قدر پیشہ وارانہ بات ہے؟ ہمارے یہاں تو اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ نیپال کی فوج تو ایسے معاملات پر شور نہیں مچاتی ہے۔ فوج اس طرح کی باتوں سے گریز کرتی ہے۔''

نیپال کا کہنا ہے کہ سن 1816 میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے تحت مغرب میں دریائے کالی تک اس کی سرحد ہے اور دریا سے متصل مشرق میں جو بھی زمین ہے وہ نیپال کا حصہ ہے۔ نیپال نے اس سلسلے میں حال ہی میں اپنا نقشہ بھی بدلا ہے اور متنازعہ علاقوں کو اپنے نئے نقشے میں شامل کیا ہے۔  لیکن بھارت نیپال کے ان دعوں کو مسترد کرتا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ علاقے میں جو نئی روڈ تعمیر کی گئی ہے وہ دفاعی نکتہ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس نئی سڑک کی مدد سے بھارت کو اب نیپال اور چین کے ساتھ مشترکہ سرحد تک براہ راست رسائی حاصل ہوگئی ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روایتی طور پر بھارت اور نیپال کے درمیان تعلقات بہت اچھے رہے ہیں لیکن بھارت کی موجودہ خارجہ پالیسی کچھ ایسی ہے کہ تقریباً تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تو پہلے سے کشیدگی تھی اور آج کل چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ نیپال کے ساتھ بھی رشتے بگڑتے جا رہے ہیں جبکہ سری لنکا کے ساتھ بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں