کشمیر میں فوج کو زمین ایکوائر کرنے لیے اجازت کی ضرورت نہیں
28 جولائی 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے برسوں پرانے اس قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر میں فوج یا پھر نیم فوجی دستوں کو کہیں بھی زمین حاصل کرنے کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ اس کے برعکس اب کشمیر میں اس مرکزی قانون کا اطلاق ہوگا جس میں بری فوج، بحریہ، فضائیہ یا پھر دیگر نیم فوجی دستوں کے لیے حصول اراضی حکومت کا دائرہ اختیار ہے اور وہ اس سلسلے میں جہاں چاہے مناسب معاوضہ دیکر زمین کو اپنے کنٹرول میں کر سکتی ہے۔
حکومت نے اس سلسلے میں اراضی حصول کے لیے سن 2013 کے اس مرکزی قانون کا حوالہ دیا ہے جس میں زمین کے بدلے باز آبادکاری کے ساتھ ساتھ معقول معاوضہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی جگہ کو اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے اہم قرار دینے کا دائرہ اختیار حکومت کا ہے۔ کشمیر میں بھی اب اس نئے قانون کے تحت حکومت جس جگہ کو بھی دفاعی نکتہ نظر سے اہم سمجھتی ہو اسے بلا روک ٹوک حاصل کر سکتی ہے اور پھر اسے فضائیہ، بحریہ اور دیگر مسلح افواج کے لیے فراہم کر سکتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ''ان ترامیم سے مسلح افواج کی ضروریات کے لیے بعض علاقوں کو اسٹریٹیجک خطہ قرار دینے کی راہ ہموار ہوجائیگی اور ایسے علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں کے نظم و نسق کو خصوصی استثنی حاصل ہوگا۔'' حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد طریقہ کار آسان بنانا ہے تاکہ دفاعی نکتہ نظر سے اہمیت والے انفرااسٹرکچر کو ترقی دی جا سکے۔
کشمیر میں بیشتر حلقے پہلے سے ہی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں موجود بھارتی فوج خطے کی ہزارں ایکڑ زمین پر قابض ہے۔ حکومت کے ان تازہ اقدامات پر کشمیریوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کسی بھی علاقے میں اگر فوج کو کچھ تعمیر کرنا ہوتا تھا تو اسے مقامی انتظامیہ سے اجازت لینی پڑتی تھی لیکن اب کسی بھی جگہ کو اگر اسٹریٹیجک قراردے دیا گیا تو پھر اس پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے علاوہ کسی کا اختیار نہیں رہے گا اور وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے کچھ بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔
کشمیر میں انسانی حقوق کے معروف کارکن پرویز امروز کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات پہلے سے بدتر ہیں اور بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ وہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل کر ہی حالات کنٹرول کر سکتی ہے۔ ''اپنے کنٹرول کے میکنزم کے تحت ہی وہ ریاست کے قوانین میں بہت تیزی سے تبدیلیاں کر ر ہی ہے اور اداروں کو تباہ کرنے میں لگی ہے۔''
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں پرویز امروز نے کہا، ''اگر فوج میرے گھر کو اسٹریٹیجک ایریا ڈکلیئر کر دے تو پھر میرا کچھ نہیں ہے۔ اس پر ریاست کا بھی کوئی کنٹرول نہیں رہ جاتا۔ بھارتی فوج کسی بھی علاقے کو گھر کو جو چاہے وہ کر سکتی ہے۔ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے اس
وقت عالمی سطح پر کشمیر میں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔''
کشمیر کی بیشتر ہند نواز سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالف ہیں اور اس سلسلے میں کئی رہنماؤں کی جانب سے بیان بھی سامنے آئے ہیں۔ تاہم حکومت نے مخالفت کے باوجود اسے منظوری دے دی ہے۔ حال ہی میں فوج نے بارہمولہ کے ایک علاقے میں ایک محکمے کی سرکاری زمین خریدینے کی کوشش کی تھی تاہم اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا تھا کہ مقامی عوام کی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے اسی کے مد نظر یہ قانون نافذ کیا ہے تاکہ فوج کشمیر میں جہاں بھی چاہے فوجی چھاؤنیاں تعمیر کر سکے اور خطے میں زیادہ سے زیادہ فوج کو تعینات کیا جا سکے۔