کیا بھارتی وزیر خارجہ تہران اسرائیل کا پیغام لے کر گئے تھے؟
17 جنوری 2024بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکرکا کہنا ہے کہ بھارت اورایران دونوں ہی مشرقی وسطی میں ہونے والے حالیہ واقعات پر فکر مند ہیں۔ انہوں نے خطے میں تشدد اور دشمنی کو مزید بڑھنے سے روکنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
بھارت میں فارسی کلاسیکی زبانوں کی فہرست میں شامل
تہران میں بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبد اللہیان سے بات چیت کے بعد ایک مشترکہ کانفرنس کی، جس میں خطے کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
بھارتی ہندو وزیر کا دورہ مدینہ، کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟
تاہم بھارتی وزیر خارجہ نے اس موقع پر بحیرہ احمر میں جہازوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں خاص طور بات کی اور کہا کہ ان خطرات سے بھارت کی توانائی کی سپلائی اور اقتصادی مفادات پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ ''سخت صورتحال'' کسی بھی فریق کے فائدے میں نہیں ہے۔
ایرانی وزیر دفاع کا دورہ بھارت، باہمی دفاعی تعاون میں اضافہ متوقع
اس دورے کی مناسبت سے بھارتی میڈیا میں ایک بار پھر سے اس طرح کی خبریں بھی آئیں کہ شاید ایران کی معروف بندرگاہ چابہار کے حوالے سے نئی دہلی اور تہران میں حتمی معاہدہ طے پا جائے اور اس سلسلے میں اہم پیش رفت کا امکان ہے۔
دورے کا اصل مقصد کیا تھا؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس دورے سے کوئی فوری طور پر اہم کامیابی ملنے والی نہیں ہے، البتہ صورتحال کے پیش نظر نئی دہلی کو بعض پیغامات پہنچانے تھے، اس لیے ایس جے شنکر نے تہران کا فوری دورہ کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیوں منسوخ کر دیا؟
ترکی میں یلدریم یونیورسٹی میں عالمی امور کے پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ فی الوقت بھارت کے لیے ''اہم مسئلہ بحیرہ احمر کی صورت حال کا ہے''، جہاں سے اس کے بھی جہاز بھی گزرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں عمیر انس نے کہا کہ ان کے نزدیک اس دورے کے تین اہم مقاصد تھے۔ اول تو یہ کہ ''بحیرہ احمر میں جہازوں پر ہونے والے حملوں سے بھارتی برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہے، بعض کمپنیوں نے اپنے جہاز ادھر سے نہ لے جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس سے بھارتی معیشت اور بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل رہی ہے، اس لیے بھارت نے ان پر اثر انداز ہونے کی درخواست کی ہو گی تاکہ بھارتی ''ایکسپورٹ کو مزید متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔''
بھارتی وزیر خارجہ نے بھی تہران میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بحیرہ احمر کے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا، ''ہم نے بھارت کے آس پاس کے علاقوں میں بھی کچھ حملے دیکھے ہیں۔ یہ بین الاقوامی برادری کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست اثر بھارت کی توانائی اور اقتصادی مفادات پر بھی پڑتا ہے۔ یہ انتہائی سخت صورتحال کسی کے بھی حق میں نہیں ہے اور اسے واضح طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔''
تجزیہ کار عمیر انس کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع نے حال ہی میں یہ بات ضرور کہی تھی کہ بھارت بحیرہ احمر میں حوثیوں کے خلاف کارروائی سے دریغ نہیں کرے گا، تاہم ''حقیقت میں بھارت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرح خطے میں ایسی صلاحیتوں سے محروم ہے اور وہ اس سے بچنا چاہتا ہے۔''
ان کے بقول دوسرا مقصد یہ تھا کہ بھارت ایران کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا تھا کہ ''فلسطین کے حوالے سے اس کی پالسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور نئی دہلی اب بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کا حامی ہے۔''
عمیر انس کے مطابق بھارت نے ''ایران سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ وہ مشرقی وسطی میں جنگ کو مزید پھیلنے سے روکے اور اس تنازعے کو وسعت نہ دی جائے۔''
عالمی امور کے ماہر ایک اور تجزیہ کار نے ڈی ڈبلیو اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ بہت ممکن ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ''اسرائیل کا کوئی پیغام لے کر تہران پہنچے ہوں، جس میں تیل ابیب نے اپنی کچھ پریشانیوں اور مسائل کا ذکر کیا ہو گا۔''
اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ''بھارت اور اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے اور گہرے ہیں، اس لیے یہ بہت ممکن ہے۔''
کیا چابہار بندر گاہ پر کوئی پیش رفت ممکن ہے؟
عمیر انس کے مطابق اس دورے میں چابہار کی بندر گاہ کا معاملہ فوکس میں ہی نہیں تھا۔ ان کے بقول بھارت اس بندر گار کو ڈیویلپ تو کرنا چاہتا ہے، تاہم ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کی وجہ سے یہ معاملہ سست روی کا شکار رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی اس پر پیش رفت کا امکان کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چابہار بندرگاہ ''بھارت کے لیے افغانستان کی وجہ سے اہم تھی، کیونکہ افغانستان کے راستے سے وہ اس بندرگاہ کے ذریعے وسطی ایشیا تک رسائی چاہتا ہے، تاہم اب افغانستان کی صورت حال بدل چکی ہے، اس لیے بھارت کے لیے اس کی اتنی اہمیت بھی نہیں رہی۔''
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے باوجود ایران پر پابندیوں کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے، اس لیے بھی بھارت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔