بھارت: زہریلی گیس کے اخراج میں چار عشرے میں پہلی بار کمی
13 مئی 2020ماحولیات سے متعلق ایک ویب پورٹل کاربن بریف کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 15فیصد کی کمی آئی جب کہ اپریل میں 30فیصد کمی ہونے کا اندازہ ہے۔
سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) نامی ادارے سے وابستہ دو محققین لاری مائلی ورٹا اور سنیل داھیا نے کوئلہ، تیل اور گیس کی کھپت کے حوالے سے مختلف وزارتوں کی طرف سے جاری کردہ تازہ اعدادو شمار کی بنیاد پر اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ مالی سال 2019-20میں اس سے سابقہ برس کے مقابلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 30ملین ٹن کی کمی آئی ہے۔ گوکہ 1970، 1974،1980 اور 1984 میں بھی کمی آئی تھی لیکن یہ حالیہ کمی کے مقابلے بہت معمولی تھی۔
خیال رہے کہ بھارت زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس اخراج کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ یہ اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے کوئلے پر بڑی حد تک منحصر ہے۔محققین کے مطابق کوئلے کی مانگ لاک ڈاون سے پہلے ہی کم ہونے لگی تھی۔اس سال مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران کوئلے کی فروخت میں دو فیصد کی کمی آئی۔ اس کے بعد سے اب تک اس میں دس فیصد کی گراوٹ ہوچکی ہے جب کہ کوئلے کی درآمدات میں بھی 27.5 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
ان محققین کا کہنا ہے کہ بھارت میں بجلی اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کاربن ڈائی آکسائیڈپیدا کرنے میں سب سے زیادہ نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔ صرف بجلی سیکٹر ہی ہر سال 929ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتا ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سے کارخانے بند ہیں جس سے بھارت کی فضائی آلودگی کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔دوسری طرف کلین انرجی کی قیمتوں میں گراوٹ آنے کی وجہ سے بھارت میں یہ توانائی کے نئے متبادل کے طور پر ابھرا ہے۔
مائلی ورٹا اور داھیا کا کہنا ہے کہ کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں سے بجلی کی پیداوار مارچ میں 15 فیصد کم ہوئی اور اپریل کے ابتدائی تین ہفتوں میں اس میں 31فیصد کی کمی آئی۔ دوسری طرف قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں مارچ میں 6.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف کوئلہ ہی نہیں بلکہ تیل کی کھپت میں بھی کمی آئی ہے۔گزشتہ برس کے مقابلے اس برس مارچ میں تیل کی کھپت 18فیصد کم ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بھارت لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد بھی ماحولیات میں ہونے والی اس بہتری کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
خیال رہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ آکسین کی مقدار کم ہونے لگتی ہے۔ اس سے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ہے اور دماغی عدم توازن جیسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ دمہ اور تنفس کے مریضوں کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔