بھارت: سرکس میں بچوں کے کام کرنے پر پابندی
18 اپریل 2011سپریم کورٹ نے اس پابندی کے علاوہ حکومت کو تمثیل پیش کرنے والی تمام سرکس کمپنیوں پر چھاپہ مارتے ہوئے وہاں ملازمت پیشہ نابالغ بچوں کو رہائی دلانے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
عدالت نے یہ حکم بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپSave the Childhood Movement کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے دیا۔ اِس درخواست میں کہا گیا تھا کہ ملک میں بچوں سے بیگار لیے جانے کے خلاف بھارتی قانون بنایا تو گیا یے تاہم سرکسوں کی جانب سے اس کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے لہٰذا اس قانون کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔
Save the Childhood Movement کی جانب سے مقرر کیے گئے وکیل کے مطابق عدالت نے فیصلہ جاری کیا ہے کہ حکومت ملک کے تمام سرکسوں میں چھاپے مارتے ہوئے 14 سال سے کم عمر بچوں کو اپنی حفاظت میں لینے کے علاوہ کم عمر بچوں کی بحالی کے لیے بھی کوئی پالیسی تشکیل دے۔
بھارت میں ان سرکسوں میں بچوں کو کم عمری سے ہی بلندی پر بندھے تاروں پر شعبدہ بازی دکھانے کے علاوہ دیگر کرتب پیش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ملک بھر میں یہ سرکس کمپنیاں سارا سال ان کرتبوں کے ذریعے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک سے دوسرے شہر کا رخ کرتی رہتی ہیں۔
دوسری جانب سرکس کے پیشے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کو کم عمری سے ہی ان کرتبوں کی تربیت دی جاتی ہے کیونکہ کسی بھی ہنر کو سیکھنے کے لیے یہ انتہائی اہم عمر ہوتی ہے۔ ان افراد نے مغربی سرکس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی بچوں کو کم عمری میں ہی تربیت دی جاتی ہے تاہم اس کی شرط یہ ہوتی ہے کہ ان بچوں کے ساتھ والدین میں سے کوئی ایک تربیت کے دوران وہاں موجود ہو اور انہیں مکمل تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے گجرات میں قائم جیمنی سرکس میں تربیت فراہم کرنے والے ایک استاد این وی چندرن کہتے ہیں کہ سرکس میں شعبدہ بازی صرف اسی وقت دکھائی جا سکتی ہے، جب اس کی نہایت کٹھن تربیت بہت کم عمری میں ہی حاصل کی گئی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پیشے کے لیے بچوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے لیے بالغوں کو تربیت نہیں دی جا سکتی۔
بھارت میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق اس وقت بھارت میں سرکس کے شعبے سے ہزاروں کی تعداد میں نابالغ بچے وابستہ ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: امجد علی