بھارت: مرگِ با رَضا کی اجازت کا تاریخی فیصلہ
9 مارچ 2018سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد برسوں سے جاری یہ بحث ایک حد تک منطقی انجام کو پہنچ گئی ہے کہ اگر کسی انسان کے زندہ رہنے کی تمام امیدیں ختم ہوچکی ہوں ، جو کوما کی حالت میں بستر مرگ پر پڑا ہو، اسے اپنی خواہش سے مرنے کا حق ملنا چاہیے یا نہیں؟
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مِشرا کی صدارت والے پانچ رکنی آئینی بنچ نے بعض شرائط کے ساتھ لوِنگ وِل میں مرِگ بارضا کی اجازت دے دی ۔ بنچ نے اس حوالے سے 538 صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ سنایا۔
بھارت میں ایوتھینیزیا پر بحث کاسلسلہ سن 2015 سے جاری ہے۔ اس کا آغاز ممبئی کی ارونا شان باگ نامی ایک نرس کی موت سے ہوا تھا جنہیں ایک اسپتال میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ چالیس برس تک کوما میں رہی تھیں۔ سپریم کورٹ نے 2011 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ارونا کو موت دینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
مرگِ با رضا کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ ’کامن کاز‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی درخواست پر آیا ہے۔ اس تنظیم نے اپنی درخواست میں دلیل پیش کی تھی کہ لاعلاج بیماری سے متاثرہ کسی انسان کو عزت کے ساتھ موت کا حق ملنا چاہئے۔ اُس نے بھارت کے آئین کی دفعہ اکیس کا حوالہ بھی دیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گذارنے کا حق ہے۔
’کامن کاز‘ کے ایک عہدیدار وپل مدگل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی اور مثبت قرار دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ اگر کسی شخص کو عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے تو اسے عزت کے ساتھ مرنے کا حق بھی ملنا چاہئے۔ اگر ایک انسان کی زندگی کی تمام امیدیں ختم ہوچکی ہوں ، جو کوما جیسے حالت میں موت کے بستر پر لیٹا ہو، تو میڈیکل سپورٹ سسٹم کو ہٹا کر اسے تکلیف سے نجات دی جانی چاہئے۔‘‘
یہاں انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر کے کے اگروال نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مریضوں اور ان کے رشتہ داروں دونوں کے حق میں ہے۔انہوں نے کہا کہ دیگر ملکوں میں پہلے سے ہی اس طرح کی سہولت موجود ہے اور بھارت میں اس کی اشد ضرورت تھی اور سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر ایک بڑی ضرورت پوری کردی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیکل کاونسل آف انڈیا میں مرگ بارضا کے سلسلے میں ہدایات پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن اب سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر اسے مزید آسان کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح دیگر وصیتوں پر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح لِونگ ول کا بھی احترام کیا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ لِونگ ول یعنی صحت کی حالت میں وصیت لکھنی چاہیے کہ اگر مستقبل میں وہ شخص کوما میں چلا جائے یا کسی لاعلاج بیماری کا شکار ہوجائے تو مصنوعی طریقے سے زندگی کو طویل کرنے کے بجائے کس طرح آسان موت کا راستہ اختیار کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تاہم مرگ با رضا کے نفاذ کے سلسلے میں بعض شرائط بھی متعین کی ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بالغ شخص جو دماغی لحا ظ سے صحت مند ہو اور اپنی بات کہنے کا اہل ہو اور اس وصیت کی ضرورت سے واقف ہو وہی وصیت لکھ سکتا ہے۔ وصیت کسی دباؤ، کسی مجبوری یا کسی اثر کے بغیر کی جانی چاہیے۔
وصیت کرنے والے کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ کس پوزیشن میں میڈیکل علاج بند کیا جائے۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ وصیت کرنے والے کو اس کے انجام کا علم ہے۔ وصیت میں اُن رشتہ داروں یا سرپرستوں کا نام بھی لکھا ہونا چاہیے جو مریض کی جانب سے فیصلہ لینے کے مجاز ہوں۔ اس کے ساتھ ہی لِونگ وِل تیار کرتے وقت دو گواہوں کی بھی ضرورت ہوگی اور اس پر فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دستخط کرنے ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے حالتِ صحت میں کی گئی اس وصیت پر عمل درآمد کے لئے بھی کئی شرائط متعین کی ہیں۔ ان میں ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم اور میڈیکل بورڈ کی تشکیل اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی منظوری کے بعد ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے اس کے نفاذ کی اجازت شامل ہے۔ اگر اس کے باوجود ڈاکٹر موت دینے کے عمل سے انکار کردے تو رشتہ دار ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں گے اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایک ڈویژن بنچ تشکیل دے کر معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
دریں اثنا حقوقِ انسانی کی کارکن اور ارونا شان باگ کا معاملہ سپریم کورٹ تک لے جانے والی پنکی ویرانی نے ایک بیان جاری کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
ممبئی کے ہی ایک جوڑے 88 سالہ نارائن لاواتے اور ان کی 78سالہ اہلیہ ایراوتی لاواتے ، جنہوں نے اپنی بیماریوں اور دیگر پریشانیوں سے تنگ آکر بھارت کے صدر سے خودکشی کی اجازت مانگی تھی ، جو کہ نہیں ملی ، نے میڈیا سے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان جیسے ہزاروں افراد کے لئے ’رحمت‘ ثابت ہوگا۔