بھارت میں بی بی سی کے خلاف حکومتی کارروائی پر عالمی ردعمل
15 فروری 2023مودی حکومت نے کہا کہ بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس محکمہ کی کارروائی چھاپے نہیں بلکہ "سروے" ہے اور یہ معمول کے مطابق ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس بی بی سی کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تفتیش کر رہا ہے۔ منگل کی صبح شروع ہونے والی کارروائی آج بدھ کو بھی جاری رہی۔
بین الاقوامی اور ملکی میڈیا تنظیموں نے اس پر نکتہ چینی کی ہے ان کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس محکمہ کی کارروائی سے "خوفزدہ کرنے کی بوآتی ہے" اور یہ اظہار رائے کی آزادی کی "توہین"کے مترادف ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے بھی بی بی سی پر انکم ٹیکس محکمے کی کارروائی پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس'(سی پی جے)نے مودی حکومت سے صحافیوں کو پریشان نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔سی پی جے کی ایشیا پروگرام ڈائریکٹر بیہہ لی یی نے ایک بیان میں کہا،"وزیر اعظم مودی کی نکتہ چینی والے ڈاکیومنٹری کے بعد بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر چھاپہ مارنے سے ڈرانے دھمکانے کی بو آتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب بھارتی حکام تنقیدی خبریں شائع کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیکس جانچ کا سہارا لے رہے ہیں۔ زیادتی بند ہونی چاہئے۔"
'اظہار رائے کی آزادی کی صریح توہین'
صحافیوں کی ایک دیگر بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز(آر ایس ایف)نے بھی ٹویٹ کرکے اس کارروائی کی نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے کہا کہ مودی پر دستاویزی فلم پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب یہ کارروائی کی گئی ہے۔
آر ایس ایف نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بھارت سرکار کی تنقید کو خاموش کرانے کی ان کوششوں کی مذمت کرتا ہے۔
خیال رہے کہ بی بی سی دفاترپر چھاپے کے دوران اس کے ملازمین کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی ضبط کرلیے گئے۔
نریندر مودی کے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم 'پروپیگنڈا' ہے، بھارت
ایمنسٹی انٹرنیشل نے بھی ٹویٹ کرکے کہا، "یہ چھاپے اظہار رائے کی آزادی کی صریح توہین ہیں۔ بھارتی حکام واضح طورپر حکمراں بی جے پی کی نکتہ چینی والے کوریج پر بی بی سی کو پریشا ن کرنے اوردھمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ "
بھارتی صحافی صدیق کپّن اٹھائیس ماہ بعد جیل سے رہا
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "محکمہ انکم ٹیکس کو حاصل وسیع اختیارات کا ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی ٹیکس حکام نے کئی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے، جن میں آکسفیم انڈیا سمیت دیگر این جی اوز شامل تھیں۔"
خیال رہے کہ گزشتہ برس نیوزکلک، نیوز لانڈری، دینک بھاسکر اور بھارت سماچار جیسے بھارتی نیوز اداروں پر انکم ٹیکس نے "سروے"کے نام پر چھاپے مارے تھے۔
امریکہ کا ردعمل
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اس کارروائی سے واقف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا،"ہم دنیا بھر میں آزاد پریس کی اہمیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انسانی حقوق کی صورت میں اظہار رائے کی آزادی اور مذہب یا یقین کی آزادی کی اہمیت پر خصوصی توجہ دیتے رہیں گے، جو دنیا بھر میں جمہوریت کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس نے اس ملک میں بھی جمہوریت کو مضبوط کیا ہے اور اس نے بھارت کی جمہوریت کو بھی مضبوط کیا ہے۔"
برطانیہ نے کہا کہ وہ بی بی سی پر چھاپے کی کارروائی پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے، حالانکہ اس نے ابھی تک باضابطہ سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بھارتی تنظیموں کی جانب سے نکتہ چینی
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کہا کہ وہ اس کارروائی کے سلسلے میں کافی فکر مند ہے۔
گلڈ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، "یہ حکومت کی پالیسیوں یا حکومتی اداروں کی نکتہ چینی کرنے والے اداروں کو ڈرانے اور پریشان کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کے استعمال کی روش کا ہی ایک حصہ ہے۔"
پریس کلب آف انڈیا نے بھی بیان جاری کرکے اس کارروائی پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام سے بھارت کے امیج کو نقصان پہنچے گا۔
کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی بی بی سی کے خلاف چھاپے ماری کی نکتہ چینی کی ہے۔
بھارت میں پریس کی آزادی؟
انسانی حقوق اور سماجی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں پریس کی آزادی کو نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق سن 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت کی پوزیشن 10مقام نیچے گر کر 180ملکوں کی فہرست میں 150 پر پہنچ گئی ہے۔
صحافیوں بالخصوص خاتون صحافیوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے اقدامات کی نکتہ چینی کرنے پر ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جاتی ہے حتی کہ ریپ اور قتل کرنے جیسی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔