بھارت میں ’سہل موت‘ کی پہلی درخواست پر غور
25 جنوری 2011بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیاکے مطابق ارونا نامی یہ خاتون ممبئی کے کنگ ایڈورڈ میموریل ہسپتال میں نرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی تھیں۔ یہ خاتون 1973ء میں رات کی شفٹ میں کام کے دوران صفائی کرنے والے ایک شخص کی جانب سے آبرو ریزی کا شکار ہوئی ۔ اس پُر تشدد واقعے میں حملہ آور نے انہیں زنجیر کے ذریعے بستر سے باندھ دیا تھا جس دوران ان کے دماغ کی رگوں کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے باعث وہ عمر بھر کے لیے ہسپتال کے بستر تک محدود ہوکر رہ گئی۔
متاثرہ خاتون کی ایک سہیلی پنکی ویرانی نے 2009 ء میں بھارت کی اعٰلی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ارونا ذہنی طور پر مردہ ہیں، وہ نہ دیکھ سکتی ہیں نہ سن سکتی ہیں اور نہ ہی کسی بھی طرح کوئی اِبلاغ کر سکتی ہیں اس لیے عدالت، کنگ ایڈورڈ ہسپتال کی انتظامیہ کو حکم جاری کرے کہ وہ اسے نالی کے ذریعے خوراک دینے کے عمل کو معطل کر دے۔
اس درخوست پر جب بھارتی عدالت نے ہسپتال کو نوٹس جاری کیا تو کنگ ایڈورڈ ہسپتال کے ڈاکڑوں کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون کا جسم نہ صرف خوراک کو قبول کر رہا ہے بلکہ وہ اپنے چہرے کے تاثرات سے اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور آوازوں کے ذریعے اپنی رفع حاجت کی ضرورت سے بھی آگاہ کر سکتی ہیں۔
عدالت نے دونوں طرف کے مختلف دلائل سننے کے بعد ایک تین رکنی طبی پینل تشکیل دیا ہے جو ارونا کی اصل حالت کا معائنہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ عدالت کو پیش کرے گا۔
ارونا کی سہیلی، ویرانی کی جانب سے دائر کی جانے والی سہل موت کی درخواست بھارت میں اپنی نوعیت کی پہلی درخواست ہے۔ اس درخوست پر کئی آئینی سوالات اٹھ سکتے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں بڑے پیمانے پر اس موضوع پر بحث کی جا رہی ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: شادی خان سیف