1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ٹیلی کوم اسکینڈل: ٹی وی دفاتر پر چھاپے

18 فروری 2011

بھارت میں وفاقی پولیس اہلکاروں نے آج جمعہ کو ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ یہ ٹی وی چینل وزیر اعظم من موہن سنگھ کی مخلوط حکومت میں شامل ایک علاقائی اتحادی پارٹی کی ملکیت ہے۔

https://p.dw.com/p/10JQO
تصویر: Fotoagentur UNI

نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ پولیس کی اس کارروائی کی وجہ سے وزیر اعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت میں ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کی جانے والی پولیس کی یہ کارروائی ملکی تاریخ کے ایک بہت بڑے مالی اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں کی گئی۔ یہ اسکینڈل چند سال قبل ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں نیلام کیے گئے ان سرکاری موبائل فون لائسنسوں کے بارے میں ہے، جو مبینہ طور پر نامناسب حد تک سستی قیمتوں پر فروخت کیے گئے تھے۔

اس سلسلے میں پولیس جس ٹیلی کوم کمپنی کے بارے میں چھان بین کر رہی ہے، اس سے متعلق چند دیگر کمپنیوں پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے کانگریس کی قیادت میں من موہن سنگھ حکومت میں شامل DMK نامی ایک علاقائی پارٹی کے ٹی وی چینل کو 47 ملین ڈالر ادا کیے تھے۔

Indien Studenten Fernsehen
جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو میں DMKکا ٹی وی چینل بہت مشہور ہےتصویر: AP

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ DMK نامی پارٹی کے خلاف تحقیقات کا دائرہ پھیلنے سے اس جماعت کے کانگریس پارٹی کے ساتھ حکومتی تعلقات میں کشیدگی آ جائے گی۔ اس کے علاوہ اسی سال ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے اس علاقائی سیاسی جماعت کی پوزیشن بھی بہت کمزور ہو جائے گی۔

نئی دہلی میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں متحدہ مرکزی حکومت اپنی پارلیمانی اکثریت قائم رکھنے کے لیے آئندہ بھی ڈی ایم کے کہلانے والی اس علاقائی جماعت کی حمایت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔

بھارت میں ٹیلی فون مارکیٹ دنیا بھر میں موبائل فون کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی مارکیٹ ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ ایک بدعنوان حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔ اسی لیے بھارتی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مالی اسکینڈل سنگھ حکومت کے لیے شدید خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

بھارتی حکومت نے ابھی جمعرات کو ہی ایک بہت پرکشش ٹیلی مواصلاتی معاہدہ اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ اس میں مبینہ طور پر بے ضابطگیاں عمل میں آئی تھیں۔ یہ بات بھی سنگھ حکومت کے لیے دباؤ کا باعث بنی کیونکہ اس معاہدے کے حوالے سے بھی حتمی ذمہ داری وزیر اعظم کے دفتر ہی کی بنتی تھی۔

نئی دہلی میں ملکی پارلیمان کا گزشتہ اجلاس تقریباﹰ پورا ہی بے نتیجہ رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو کسی بھی طرح کی قانون سازی سے عملی طور پر روک دیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ من موہن سنگھ حکومت ظاہری طور پر ایک وسیع تر تحقیقاتی عمل پر اتفاق کرنے والی ہے، جس کے ذریعے موبائل فون لائسنسوں سے متعلق مکمل تفصیلات منظر عام پر لائی جا سکیں گی۔

اس طرح حکومت یہ چاہتی ہے کہ نئی دہلی کی پارلیمان میں معمول کی کارروائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بھارتی پارلیمان کا بجٹ اجلاس پیر 21 فروری سے شروع ہونے والا ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں