بھارت میں ڈاکٹر امبیڈکر پر جاری سیاسی جنگ کیا ہے؟
20 دسمبر 2024بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے متعلق وزیر داخلہ امیت شاہ کے متنازع بیان پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف کانگریس سمیت دیگر متعدد اپوزیشن جماعتیں صف آرا ہو گئی ہیں۔ ملکی پارلیمان سے شروع ہونے والی یہ سیاسی لڑائی ملک کے متعدد صوبوں تک پہنچ گئی ہے اور ممبئی سمیت کئی مقامات سے پرتشدد واقعات کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔
بھارت میں نئے آئین کی تجویز پرہنگامہ اور مودی حکومت کی وضاحت
اس دوران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس کی طرف سے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرانے تک پہنچ گیا۔
بی جے پی نے اپنے ایک رکن پارلیمان کو قتل کرنے کی کوشش اور ایک خاتون رکن پارلیمان کی عزت کو مجروح کرنے سمیت دیگر الزامات عائد کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ دوسری طرف کانگریس نے اپنے صدر ملک ارجن کھڑگے کو زخمی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بی جے پی کے متعدد اراکین پارلیمان کے خلاف کیس درج کرایا ہے۔
تنازع کیسے شروع ہوا؟
بھارت کے آئین ساز اور اعلیٰ ترین شہری اعزاز 'بھارت رتن' یافتہ دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو ملک میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت کے عوام کو سماجی انصاف اور مساوات فراہم کرنے کے روح رواں سمجھے جانے والے امبیڈکر کو ملک کا دلت طبقہ اپنا "مسیحا اور بھگوان" کا درجہ دیتا ہے۔
گوکہ ہندوتوا کی علمبردار تنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی سمیت اس کی دیگر ذیلی تنظیمیں ڈاکٹر امبیڈکر کی شخصیت، ان کی تعلیمات اور فلسفے سے بڑی حد تک اختلاف کرتی ہیں لیکن سیاسی مجبوریوں کے سبب کھل کر مخالفت نہیں کرپاتیں۔
امبیڈکر کے حوالے سے حالیہ سیاسی لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب دستور ہند پر پارلیمان میں ایک مباحثے کے دوران بی جے پی کے سینیئر رہنما اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن رہمناؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،"اب یہ ایک فیشن بن گیا ہے… امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر۔ اگر تم نے اتنا بھگوان کا نام لیا ہوتا تو سات جنموں کے لیے سورگ مل جاتا۔"
امیت شاہ کی ایک طویل تقریر کے اس چھوٹے سے حصے پر اتنا ہنگامہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو ملتوی کرنا پڑا۔
کانگریس نے امیت شاہ کے بیان کو بھارت کے آئین ساز کی توہین قرار دیا۔ اور ان سے اپنے بیان پر معافی مانگنے اور استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف امیت شاہ نےکہا کہ کانگریس پارٹی نے ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی امیت شاہ کے بیان کے دفاع میں سوشل میڈیا پر کئی پوسٹ کیے۔
ہنگامے میں شدت
اس واقعے نے دھڑوں میں منقسم اپوزیشن کی کئی دیگر جماعتوں کو کانگریس کا ہمنوا بنادیا ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی دونوں بڑی حلیف جماعتوں، جنتا دل یونائیٹیڈ اور تیلگو دیسم پارٹی پر بھی دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ جو یقیناﹰ بی جے پی کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔
انڈیا یا پھر بھارت، نیا تنازع کیا ہے؟
کانگریس پارٹی اور اس کی قیادت والی انڈیا اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بدھ کے روز سے ہی پارلیمنٹ کے احاطے میں احتجاج کررہی ہیں۔
کل جمعرات کو تنازع نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب پارلیمنٹ احاطے میں بی جے پی اور اپوزیشن کے اراکین آمنے سامنے آگئے۔
پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے الزام لگایا کہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ پرتاپ سارنگی اور مکیش راجپوت کو 'شدید زخمی' کر دیا۔
ناگالینڈ سے بی جے پی کی خاتون رکن پارلیمنٹ فانگون کونیاک نے الزام لگایا کہ راہول گاندھی نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی۔
کانگریس کے صدر نے جوابی الزام میں کہا کہ ''بی جے پی کے لوگ چاروں طرف سے ہمارا مذاق اڑا رہے تھے اور ہمیں چھیڑ رہے تھے۔ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔" کھڑگے نے مزید کہا، "انہوں نے مجھے دھکیل دیا۔ میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اب وہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔"
راہول گاندھی نے بھی ایک پریس کانفرنس کی اور کہا "سچ یہ ہے کہ جب میں پارلیمنٹ میں داخل ہو رہا تھا تو بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کا ایک گروپ میرا راستہ روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ملکارجن کھڑگے کو بھی دھکیل دیا گیا۔ اس لیے وہاں ہنگامہ مچ گیا۔"
بھارت میں نظام عدل کی بنیاد بدل دینے والے قوانین منظور
راہول گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ بی جے پی یہ ڈرامہ صنعت کار اڈانی کے متعلق امریکی رپورٹ پر بحث کو روکنے کے لیے کررہی ہے۔
دریں اثنا ممبئی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بی جے پی کی یوتھ ونگ کے درجنوں کارکنوں نے کانگریس کے دفتر پر حملہ کردیا اور توڑ پھوڑ مچائی۔ پولیس نے اس سلسلے میں تقریباﹰ چالیس افراد کو نامزد کیا ہے اور متعدد کو حراست میں لیا ہے۔
امبیڈکر کی وراثت کا دعویٰ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نہ تو بی جے پی اور نہ ہی کانگریس ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی وراثت کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ دسمبر 1946 میں جب متحدہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی بنی تو بھارتی آئین کے خالق اور ممتاز دلت رہنما ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ممبئی سے الیکشن ہار گئے۔
کانگریس میں دائیں بازو کے ہندو عناصر، جو اب بی جے پی کے آئیکنز سمجھے جاتے ہیں، نے ان کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم امبیڈکر نے ایک اور ممتاز دلت رہنما جوگیندر ناتھ منڈل، اور حسین شہید سہروردی کی تائید، اور مسلم لیگ کی حمایت سے جیسور-کھلنا سیٹ (اب بنگلہ دیش میں) سے ضمنی انتخاب لڑا اور جیت کر آئین ساز اسمبلی کے رکن بنے۔
امبیڈکر کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے، مسلم لیگ نے ضمنی انتخاب کے لیے نشست خالی کرتے ہوئے اپنے ایک رکن سے استعفیٰ دلا دیا تھا۔
اس جیت کے بعد ہی امبیڈکر کو آئین کی ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔
چھ ماہ بعد، جب ریڈکلف ایوارڈ کے تحت جیسور-کھلنا مشرقی پاکستان میں چلا گیا، تو کانگریس نے اپنی سیاسی ضرورت کے تحت، ممبئی میں ایک نشست خالی کرنے کا انتظام کیا اور وہاں ایک اور الیکشن کرایا، اس طرح آئین ساز اسمبلی میں امبیڈکر کی رکنیت اور ڈرافٹنگ کمیٹی کی سربراہی کو محفوظ کیا گیا۔
آئین ہند کی تکمیل اور نفاذ کے بعد، امبیڈکر پہلے عام انتخابات میں ہار گئے۔ اس کے بعد انہوں نے ضمنی انتخاب بھی لڑا لیکن انہیں دوبارہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت میں دوسرے عام انتخابات کے انعقاد کے وقت امبیڈکر کا انتقال ہو چکا تھا۔
اشوک گوپال کی لکھی ہوئی ڈاکٹر امبیڈکر کی مستند سوانح عمری میں ڈاکٹر امبیڈکر کے ایک خط کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر امبیڈکر خود لکھتے ہیں کہ (مشہور کمیونسٹ رہنما) ڈانگے اور (ہندو قوم پرست رہنما) ساورکر نے انہیں پہلے لوک سبھا انتخابات میں بمبئی نارتھ کی مخصوص نشست سے ہرانے کی سازش کی تھی۔