1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کمسن لڑکیوں سے شادی کرنے پر ہزاروں مرد گرفتار

جاوید اختر، نئی دہلی
4 فروری 2023

شمال مشرقی بھارتی صوبے آسام میں بی جے پی حکومت نے کم عمری میں غیر قانونی شادیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی ہے۔ پولیس نے جمعے کے روز اس سلسلے میں دو ہزار سے زائد مردوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4N66T
Bildergalerie Kinderheirat in Südasien
تصویر: Getty Images/AFP

آسام حکومت  نے ریاست میں ہونے والی کم عمری کی شادیوں اور زچہ و بچہ کی اونچی شرح اموات پر قابو پانے کے لیے ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پولیس نے ریاست گیر وسیع پیمانے پر مہم شروع کر دی ہے۔ جمعے کے روز شروع ہونے والی یہ مہم فی الحال دو ہفتے جاری رہے گی۔

آسام کے ڈائریکٹر جنرل پولیس جی پی سنگھ نے بتایا کہ مہم کے پہلے روز 2044 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں مسجدوں کے امام اور مندروں کے پجاریوں کے علاوہ بچوں کی شادیاں کرانے میں مدد کرنے والے 52 افراد شامل ہیں۔

سنگھ کا کہنا تھا کہ آسام میں 12 برس تک کی عمر کی بچیاں بھی مردوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے 4074 کیسز پولیس کے علم میں آئے ہیں اور ان کی تفتیش کی جا رہی ہے۔

آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما نے مہم کا آغاز کرتے ہوئے عوام سے اس ’’لعنت‘‘ کو ختم کرنے میں مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔

دس سال کی بچیاں جبری شادی پر مجبور: سیو دی چلڈرن

سرما نے کہا کہ آسام میں ہر آٹھ میں سے ایک عورت 18برس سے قبل ہی ماں بن جاتی ہے اور اس کم عمری میں زچگی کی وجہ سے زچہ اور بچہ دونوں کی شرح اموات  میں اضافہ ہو رہا ہے۔

فیصلے پر اعتراضات بھی

وزیر اعلی سرما کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کو گرفتار اور شادی کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔ اگر لڑکے کی عمر بھی 14برس سے کم ہو گی تو اسے بچوں کے اصلاحی مرکز بھیج دیا جائے گا کیونکہ نابالغوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

آسام میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ سرما مسلمانوں کے حوالے سے ماضی میں بعض قابل اعتراض فیصلوں اور متعدد اعلانات کے لیے بھی مشہور ہیں۔

بھارت: لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم قانونی عمر اب 21 برس

ان کے اس نئے اقدام کو بھی مذہبی نظریے سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آسام پولیس نے، جن علاقوں میں بچہ شادیوں کے کیسز درج کیے ہیں، ان میں بیشتر مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔

ہیمنت بسوا سرما کی تاہم دلیل ہے کہ یہ مہم کسی مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں شروع کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا، ''مسلم ہوں یا ہندو، عیسائی ہوں یا قبائلی یا چائے باغات میں کام کرنے والی کمیونٹی، ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کو ان کے اس سماجی جرم کے لیے گرفتار کیا جا رہا ہے۔"

یونیسیف نے 2020ء کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں ہر سال تقریباً 15 لاکھ کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں
یونیسیف نے 2020ء کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں ہر سال تقریباً 15 لاکھ کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیںتصویر: Getty Images/Strdel

'بھارت بچہ شادیوں کا گڑھ'

بھارت میں یوں تو 18برس سے کم عمر لڑکیوں کی شادی غیر قانونی ہے۔ لڑکوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 21 برس ہے لیکن ملک میں اس قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔

بھارت: لڑکیوں کی شادی 18برس میں ہو یا21 میں؟

ہندووں کے بعض طبقوں میں سال میں ایک خصوصی موقع پر بچوں کی شادیاں بڑے پیمانے پر انجام دی جاتی ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ اس کا علم ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتی کیونکہ ان شادیوں کو سیاسی رہنماوں کی تائید حاصل رہتی ہے حتی کہ وہ ان میں شرکت بھی کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ بھارت دنیا میں بچیوں کی کم عمری میں شادی کا گڑھ ہے، جہاں تقریباً 22 کروڑ 30 لاکھ کم عمر شادی شدہ بچیاں ہیں۔

جنوبی ایشا میں نصف سے زیادہ لڑکیوں کی شادی 18 سال سےکم عمر میں

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے (یونیسیف) نے 2020ء کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں ہر سال تقریباً 15 لاکھ کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔

ہندو دیوی کے نام پر جنسی غلام بن کر رہنے والی بھارتی خواتین

بہت سے والدین مالی حالت بہتر ہونے کی امید میں بھی اپنی بچیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں۔ لیکن کم عمری میں شادی کی وجہ سے لڑکیوں کو بہت سارے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ سن 2017 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کم عمر بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کو ریپ قرار دیا تھا۔