1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ہزاروں سال قبل بھی انٹرنیٹ تھا، بھارتی وزیر اعلیٰ

جاوید اختر، نئی دہلی
18 اپریل 2018

بھارت کی حکمراں جماعت اور شمال مشرقی صوبے تریپورا کے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب نے عجیب و غریب دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں ہزاروں سال قبل اساطیری مہابھارت کے دور میں بھی انٹرنیٹ جیسی سہولت موجود تھی۔

https://p.dw.com/p/2wGk1
Indien Tripuras Ministerpräsident Biplab Deb
تصویر: Govt. of Tripura

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما بپلب کمار دیب کے اس بیان پر نہ صرف نکتہ چینی ہو رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اس کا زبردست مذاق اڑایا جا رہا۔ لیکن وزیر اعلیٰ نہ صرف اپنے بیان پر جمے ہوئے ہیں بلکہ نکتہ چینی کرنے والوں کو ’تنگ نظر‘ بھی قرار دے رہے ہیں۔ اسی ریاست کے گورنر تتھا گت رائے بھی ان کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں۔
کمپیوٹر ائزیشن کے حوالے سے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب نے دعویٰ کیا ہے کہ’’بھارت صدیوں سے انٹرنیٹ کا استعمال کر رہا ہے۔ مہابھارت کے دوران کروکشیتر کی لڑائی کے بارے میں میدان جنگ سے میلوں دور رہنے کے باوجود کورووں کے نابینا راجہ دھرت راشٹر کو ان کا معاون سنجے پوری تفصیل سے جنگ کے حالات بتا رہے تھے، جو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہو سکا تھا۔ یعنی بھارت میں لاکھوں برس قبل ہی انٹرنیٹ ایجاد کر لیا گیا تھا۔ سیٹلائٹ اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کا استعمال اس وقت ہو رہا تھا۔‘‘ دیب کا مزید کہنا تھا، ’’یورپی ممالک اور امریکا کا دعویٰ ہے کہ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ان کی ایجاد ہے لیکن یہ درحقیقت بھارت کی ٹیکنالوجی ہے۔ آج بھی انٹرنیٹ اور سافٹ ویئر ٹیکنالوجی میں بھارت سب سے آگے ہے۔ مائیکروسافٹ ایک امریکی کمپنی ہو سکتی ہے لیکن اس کے بیشتر انجینئر بھارتی ہیں۔‘‘
دیب دہلی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کے سرگرم رکن رہ چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ صوبائی اسمبلی الیکشن میں انہوں نے بائیں بازو کی پچیس سالہ حکومت کو بھاری اکثریت سے شکست دینے میں اہم رول ادا کیا تھا، جس کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔
قدیم بھارت اور ہندو روایات کے حوالے سے بی جے پی لیڈروں کے عجیب و غریب بیانات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے میزائل اور راکٹ کا موازنہ بھگوان رام کے تیر سے کیا تھا۔ وفاقی وزیر سائنس ڈاکٹر ہرش وردھن نے حال ہی کہا تھا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے تسلیم کیا تھا کہ ہندووں کی مقدس کتاب وید کے بعض نظریات آئن سٹائن کے نظریہ اضافت سے آگے ہیں۔

Screenshot Twitter- Limes of India
تصویر: Twitter

 وفاقی جونیئر وزیر تعلیم ستیہ پال سنگھ نے دعوی کیا تھا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء سائنسی لحاظ سے غلط ہے اور اسے اسکولوں کے نصاب سے ہٹا دینا چاہیے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ہندووں کے بھگوان گنیش، جن کا جسم انسانوں اور سر ہاتھی کا ہے، دراصل صدیوں پہلے بھارت میں موجود پلاسٹک سرجری کا بے مثال نمونہ ہے۔
وزیر اعلیٰ بپلب دیب کا بیان آج سوشل میڈیا پر چھایا رہا۔ بیشتر افراد اس پر طنز کر رہے ہیں۔ فلمی اداکارہ سوورا بھاسکر نے ٹویٹ کیا، ’’سچ مچ میرے پاس تبصرے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘‘ سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے لکھا، ’’بی جے پی کے تریپورا کے وزیر اعلیٰ بپلب دیب نے مودی کی ہاں میں ہاں ملا دی ہے۔ یاد کیجئے مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ قدیم بھارت میں پلاسٹک سرجری موجود تھی اور بھگوان گنیش کے سر پر ہاتھی کا سر پلاسٹک سرجری کا کارنامہ ہے۔ انہیں تو نوبل انعام ملنا چاہیے۔‘‘

ٹوئٹر پر اوماشنکر نامی ایک یوزر نے لکھا، ’’یہ اس صدی کی بریکنگ نیوز ہے۔ مہابھارت کے دور میں انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ہی نہیں ویڈیو چیٹ فیچر والا لیپ ٹاپ بھی مارکیٹ میں آگیا تھا۔‘‘

Indien Tripuras Ministerpräsident Biplab Deb
تصویر: Govt. of Tripura

قادر سید شیخ نامی ایک یورز نے ٹویٹ کیا، ’’ہمیں وپلب دیب کی دبئی میں ہمارے چڑیا گھر میں ضرورت ہے۔ ہمارے بچے انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘

 ایک دوسرے یوزر کا کہنا تھا، ’’تب تو یقینی طور پر ان دنوں اے ٹی ایم سے نقدی نوٹ نکلتے ہوں گے۔‘‘ خیال رہے کہ آج کل بھارت میں مختلف شہروں میں اے ٹی ایم میں نوٹوں کی قلت ہوگئی ہے۔ جس کے لیے مودی حکومت پر کافی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔
کچھ لوگوں نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ دلچسپ تصویریں بھی منسلک کی ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے بپلب دیب کی تائید بھی کی ہے۔ آر ایس چودھری نے وزیر اعلیٰ کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے لکھا، ’’بیان پر تبصرہ عجیب ہے کیوں کہ آپ اس ملک کی ثقافت سے واقف نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے بیان کو عجیب و غریب مت کہیے، جہالت سے پردہ ہٹائیں۔‘‘
خیال رہے کہ بھارت میں انٹرنیٹ کا آغاز 1986ء میں تعلیمی مقاصد کے لیے ہوا تھا۔ اس وقت یہ صرف تعلیمی اور تحقیقی اداروں تک محدود تھا۔ 1995ء میں حکومتی ملکیت والا ادارہ ودیش سنچار نگم لمیٹیڈ(وی ایس این ایل) نے عوام کے لیے انٹرنیٹ سروس شروع کی۔

اس وقت اس پر وی ایس این ایل کی اجارہ داری تھی، یہ کافی مہنگا تھا اور صرف چند بڑے شہروں تک ہی محدود تھا۔ 1998ء میں اسے پرائیویٹ آپریٹروں کے لئے کھول دیا گیا۔ انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جون 2018ء تک بھارت میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد پانچ سو ملین تک پہنچ جائے گی۔