1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ہزاروں لوگ مرنے کے لیے کس شہر کا سفر کرتے ہیں؟

4 ستمبر 2024

ہندو مذہبی عقائد کے مطابق اگر مرنے والے کی آخری رسومات گنگا کنارے ادا کی جائیں تو اسے حتمی نجات حاصل ہو جاتی ہے۔ صدیوں سے بزرگ ہندو یاتریوں کی اس دنیا میں آخری منزل وارانسی شہر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4kHCm
ہندوؤں کے لیے بھارت کا شمالی شہر وارانسی، جسے ماضی میں بنارس کہا جاتا تھا، دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے
ہندوؤں کے لیے بھارت کا شمالی شہر وارانسی، جسے ماضی میں بنارس کہا جاتا تھا، دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہےتصویر: Niharika KULKARNI/AFP

بھارت کے  مقدس شہر وارانسی پہنچنے والے بزرگ ہندوؤں میں سےکچھ کے پاس وہاں قیام کے لیے صرف چند دن ہی ہوتے ہیں جبکہ چند دیگر افراد کئی دہائیوں تک اپنی موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہاں کا رخ کرنے والے ہندو عقیدت مندوں کا ہجوم اس لیے پرسکون اور پراعتماد ہوتا ہے کہ موت کے سفر کے لیے ان کی یہ یک طرفہ یاترا انہیں لازوال امن فراہم کرے گی۔

وارانسی میں دریائے گنگا کے کنارے قطار میں رکھی گئی چتاؤں سے ہر لمحے دھواں بلند ہوتا رہتا ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر سال ہزاروں ہندو عقیدت مند اپنے آخری ایام گزارنے آتے ہیں۔ ہندو مذہبی عقائد کے مطابق گنگا کے کنارے مرنا اس بات کی ضمانت ہےکہ  مرنے والے کی لاش وہیں جلائی جائے گی اور  پھر اس کی راکھ دریا کےکناروں یا ''گھاٹوں‘‘ کے ساتھ ساتھ بہتے پانی میں بکھیر دی جائے گی۔ اس عمل کے بارے میں ہندوؤں کا خیال ہے کہ یہ انہیں دنیا میں دوبارہ جنم لینے کے چکر سے نجات دلاتا ہے۔

وارانسی میں دریائے گنگا کے کنارے قطار میں رکھی گئی چتاؤں سے ہر لمحے دھواں بلند ہوتا رہتا ہے
وارانسی میں دریائے گنگا کے کنارے قطار میں رکھی گئی چتاؤں سے ہر لمحے دھواں بلند ہوتا رہتا ہےتصویر: Niharika KULKARNI/AFP

92 سالہ بدری پرساد اگروال نے ملک کی مغربی ریاست راجستھان سے 1,000 کلومیٹر (620 میل) سے زائد کا فاصلہ کئی دنوں میں طے کیا اور انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ مرنے کے لیے اب صحیح جگہ پر ہیں۔ اپنی زندگی کے ایک طویل اور مشکل سفر کے اختتام  پر آرام کرتے ہوئے اس بوڑھے ہندو یاتری نے کہا، ''یہ خدا کی اپنی زمین ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کے خدا نے انہیں بتایا ہے کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے مزید پانچ مہینے ہیں۔ وہ انہیں ایک ایسی پناہ گاہ میں گزارنے کے لیے تیار ہیں، جو ان لوگوں کو خدمات مہیا کرتی ہے، جو وارانسی اپنے آخری ایام  ماضی اور مستقبل کے بارے میں پرسکون غور و فکر میں گزارنے کے لیے آتے ہیں، ایک ایسا مستقبل جس کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ وہ آئے گا۔

اگروال نے کہا، ''میں ہر روز خدا سے بات کرتا ہوں۔ جلد ہی میں خدا کے گھر میں سکون سے رہوں گا۔‘‘ انہیں فی الحال ایک چیریٹی گیسٹ ہاؤس میں رہنے کے لیے جگہ مل گئی ہے، جسے ممکشو بھون ہاسپیس کہتے ہیں،  ''نجات کے متلاشیوں کا گھر‘‘ جو اس شہر میں قائم کئی ''نجات کے گھروں‘‘ میں سے ایک ہے۔ اس مرکز میں چالیس کمرے ہیں، جو ان ہزاروں لوگوں میں سے کچھ کے کام آتے ہیں، جو مرنے کے لیے وارانسی آتے ہیں۔

اگروال وہاں جا کر خوش ہیں کیونکہ یہ مقدس گنگا دریا کے قریب ترین مقامات میں سے ایک ہے، صرف ایک منٹ کی دوری پر۔ وہاں شمشان گھاٹ کی آگ مسلسل بھڑکتی رہتی ہے۔ ہندوؤں کے لیے بھارت کا شمالی شہر وارانسی، جسے ماضی میں بنارس کہا جاتا تھا، دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ بھگوان شیو کا شہر ہے، جو تباہی کے دیوتا مانے جاتے ہیں اور ہندو عقائد کے مطابق ان کی دوبارہ تخلیق سے پہلے ہی انہیں تباہ کر دینا چاہیے۔  لوگ صدیوں سے ''موکشا‘‘ یا آزادی کی تلاش میں یہاں کا سفر کر رہے ہیں۔

عقیدت مندوں کی بڑی تعداد یہاں گنگا اشنان بھی کرتی رہتی ہے، ان کے مطابق مقدس گنگا کا پانی ان کے گناہ دھو دیتا ہے
عقیدت مندوں کی بڑی تعداد یہاں گنگا اشنان بھی کرتی رہتی ہے، ان کے مطابق مقدس گنگا کا پانی ان کے گناہ دھو دیتا ہےتصویر: Niharika KULKARNI/AFP

کچھ لوگ اکیلے ہی ان نجات گھروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں گزر بسر کے لیے خیرات پر انحصار کرتے ہیں۔ کچھ شادی شدہ جوڑے  ہوتے ہیں۔ چند دیگر اپنی زندگی کی جمع پونجی زاد راہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا اپنی دیکھ بھال کے لیے رشتہ داروں کو ساتھ لاتے ہیں۔

وارانسی میں بیماروں کے لیے طبی سہولیات تو موجود ہیں لیکن اس مقدس شہر میں موت پر ماتم کرنے جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ اس کے بجائے، وہاں موت کو ایک نعمت سمجھا جاتا ہےکیونکہ وہاں مرنے کے لیے جانے والے ہندو بزرگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ ان کی روحیں زندگی اور موت کے چکر سے آزادی حاصل کر لیں گی۔ بہتر سالہ نتھی بائی دو سال قبل وارانسی منتقل ہو گئی تھیں، جو مانی کارنیکا  شمشان گھاٹ کی جگہ پر اپنا آخری وقت آنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''میں چاہتی ہوں کہ جنازہ ہو، میری روح کو سکون ملے اور میری راکھ گنگا میں بہا دی جائے۔‘‘

91 سالہ گلاب بائی تیس سال قبل وارانسی آئی تھیں اور اب تک یہاں سکون کے ساتھ اپنی موت کا انتظار کر رہی ہیں
91 سالہ گلاب بائی تیس سال قبل وارانسی آئی تھیں اور اب تک یہاں سکون کے ساتھ اپنی موت کا انتظار کر رہی ہیںتصویر: Niharika KULKARNI/AFP

نتھی بائی نے ان لوگوں کی آخری رسومات دیکھی ہیں، جو اپنے اس پرجوش یقین کے ساتھ مرے تھے کہ ان کے لیے آئندہ نجات ہی نجات ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں لوگوں کو آخری رسومات کے لیے ایک دیوتا کی طرح تخت پر لے جایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہاں بہت احترام ہے اور سب کچھ بہت اچھے طریقے سے کیا جاتا ہے۔‘‘

گلاب بائی 30 سال پہلے اپنے شوہر کے ساتھ وہاں گئی تھیں۔ ان کے شوہر سات سال بعد مر گئے تھے اور اب  وہ خود بھی اپنے شوہر کے پاس جانے کے لیے تیار ہیں۔  ہندو عقیدے میں مقدس سمجھے جانے ولے زعفرانی رنگ کی ساڑھی میں ملبوس 91 سالہ گلاب بائی سکون سے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''یہاں مرنا اور آخری رسومات کی ادائیگی، زندگی اور موت کے نہ ختم ہونے والے چکر کو توڑ دیتے ہیں۔ یوں میں بھی نجات حاصل کر لوں گی۔‘‘

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

صبحِ بنارس: گنگا کے گھاٹ پر نور صبح کی رونق