بیت اﷲ محسود کی مبینہ ہلاکت، بیشتر حلقوں کا اظہار اطمینان
7 اگست 2009پاکستان بھر میں یہ امیدظاہر کی جا رہی ہے کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں دہشت گردانہ سر گرمیوں میں کمی واقع ہونے کی امید ہے۔
تا ہم بعض حلقوں کی طرف سے بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کی طرف سے ردِ عمل کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت کسی نا خوشگوار ردِ عمل سے بچنے کے لئے سرکاری طور پر بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کی تصدیق کرنے سے گریز کر رہی ہے لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خفیہ اداروں سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر واضح طور پر کہا ہے کہ بیت اﷲ محسود ایک میزائل حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
ممتاز سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت پاکستان کے لئے اچھی خبر ہے کیونکہ بیت اﷲ محسود نے دہشت گردانہ حملوں اور خود کش حملوں کے ذریعے پاکستان کی افواج اور پیرا ملٹری فورسز پر کافی دباؤ بڑھا رکھا تھا۔ ان کے مطابق پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروں کے لئے سب سے بڑا چیلج بن جانے والی تحریک طالبا ن پاکستان اب کمزور ہو گی اور اب یہ اندازہ لگانا آسان نہیں ہے کہ کیا نئی قیادت فیلڈ ورکرز کو متحد رکھ سکے گی یا نہیں۔
ممتاز دانشور اور وکیلوں کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے ڈوئچے یلے کو بتایا کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم اثرات کا حامل واقعہ ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کو آخری فتح سمجھنا درست نہیں ہو گا ۔دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بتایا کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کی توقع رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق جب تک غیر ملکی افواج پاکستان میں کارروائیاں کرتی رہیں گی اور امریکی حکومت پاکستان کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت جاری رکھے گی، یہاں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو فروغ ملتا رہے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کا واقعہ اپنے اندر کئی سوالات رکھتا ہے ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ بیت اﷲ محسود کو کس نے اب تک زندہ چھوڑے رکھا تھا اور کس نے ان کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور کس کی خواہش کے بر عکس بیت اﷲ محسود مار دئیے گئے ہیں۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور پیپلز پارٹی کی رہنما بیگم سیدہ عابدہ حسین نے کہا بیت اﷲ محسود اوران کے ساتھی پاکستان کے سرکاری اداروں کی دشمنی بھی کرتے چلے آئے ہیں اور انہوں نے پاکستان کے معصوم عوام کے خون سے ہولی بھی کھیلی ہے ۔ انہوں نے بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کو پاکستان کی افواج اور حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد عالمی دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور حکومت دہشت گردی کے خلاف موثر کوششیں کر رہی ہے۔
ممتاز صنعت کار اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن کے چئیرمین اکبر شیخ نے کہا کہ جواقدام بھی ملک سے دہشت گردی کو کم کرنے کا باعث بنے گا اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی اب پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات میں کمی واقع ہو گی اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور سرمایہ کاری کے لئے فضا بہتر ہو سکے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں سوشل سائنس فیکلٹی کے ڈین اور ممتاز ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں نے بیت اﷲ محسود کی ہلاکت پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اب ملک کو دہشت گردی کے خدشات سے قدرے نجات مل سکے گی۔ لیکن ان کے مطابق اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والے ردِ عمل سے بچنے کے لئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے حوالے سے ہائی ویلیو ٹارگٹ کا خاتمہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے خفیہ ادارے کے سابق سربراہ مسعود شریف کا کہنا ہے کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت بغیر کسی بڑے جانی نقصان کے ایک مبینہ ڈرون حملے سے ہوئی ہے اور اس طرح ایک ہائی ویلیو ٹارگٹ کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی حاصل کی گئی ہے ۔ ان کے مطابق دوسری طرف سوات میں چالیس لاکھ افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر کے بھی ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مولانا فضل اﷲ گرفتار ہیں یا کہیں آزاد پھر رہے ہیں۔
انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ بیت اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد نہ صرف طالبان تحریک میں پھوٹ پڑنے کا مکان ہے اور اس تحریک کے کمزور ہونے کا بھی امکان ہے بلکہ اس واقعہ کے بعد فوج کی موٹیویشن بھی بڑھ جائے گی۔ ان کے مطابق اس واقعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب امریکہ پاکستان کی فوج سے یہ مطالبہ زیادہ شدت سے کرے گا کہ وہ افغانستان میں طالبان کو حملوں کو روکنے میں زیادہ موثر کردار ادا کریں۔
رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور
ادارت : عاطف توقیر