بے باک چينی ارب پتی کو اٹھارہ برس قيد کی سزا
29 جولائی 2021چین کی ايک عدالت نے انتيس جولائی جمعرات کو ملک کی ايک سرکردہ کاروباری شخصيت ارب پتی سن داؤ کو اٹھارہ برس قید کی سزا سنا دی ہے۔ وہ چين میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کھل کر بات کرتے آئے ہيں۔ سن داؤ کا تعلق چین کے شمالی صوبے ہیبی سے ہے، جہاں وہ ملک کے سب سے بڑے نجی زرعی کاروباری نيٹ ورک میں سے ایک کے مالک ہیں۔
سرسٹھ سالہ سن داؤ ماضی میں انسانی حقوق سے منسلک مسائل اور ملک کے حساس سیاسی مسائل پر بات کرتے آئے ہيں۔ عدالت نے انہیں، ’جھگڑا کرنے، پریشانیاں کھڑی کرنے اور اشتعال انگیزی‘ کا مجرم قرار دیا۔ چین میں عموماً اس طرح کے الزامات حکومت کے ناقدين کے خلاف استعمال کیے جاتے ہيں۔ ان پر غیر قانونی طور پر زمين پر قبضہ کرنے، حکومتی ایجنسیوں پر حملہ کرنے کے لیے ہجوم جمع کرنے اور سرکاری ملازمین کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کے ليے اکسانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ عدالت نے ان پر تقریباً پونے پانچ لاکھ ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
سن داؤ چین کی معروف کمپنی سن داؤ کے چیئرمین ہیں، جو سور کے گوشت سمیت کئی دیگر کاروبار کے لیے بھی معروف ہے۔ گزشتہ برس اگست میں حکام نے اس کمپنی کی ایک عمارت کو منہدم کرنے کی کوشش کی تھی اور اس وقت کمپنی سے وابستہ افراد نے حکام کی اس کوشش کے خلاف مزاحمت کی تھی۔
سن داؤ نے حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران وکلاء کی کوششوں کی تعریف کی تھی، جس کے بعد ان سمیت بیس افراد کو گرفتار کر لیا گيا تھا۔ اسی کیس کے دیگر ملزمان کو ایک برس سے 12 برس کے درمیان سزائیں سنائی گئی ہیں۔
سن داؤ بعض ايسے چینی سیاست دانوں سے بھی قریب رہے ہیں، جو چینی حکومت کی نکتہ چینی کرتے آئے ہيں اور ماضی میں کئی بار دیہی علاقوں سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر تنقيد کر چکے ہيں۔ وہ ملک کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہيں، جنہوں نے حکومت پر افریقی سوائن فلو کی وبا پر پردہ ڈالنے کا الزام بھی لگایا تھا۔ اس فلو کی وجہ سے سن 2019 میں ان کا فارم ہاؤس بری طرح متاثر ہوا تھا اور بعد میں اسی فلو کے سبب ملک کی بیشتر صنعتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
عدالت نے ’غیر قانونی فنڈز جمع کرنے‘ کے ایک کیس میں سن 2003 میں بھی انہیں جیل کی سزا سنائی تھی تاہم کارکنان اور عوام کی جانب سے زبردست رد عمل کے بعد ان کی یہ سزا منسوخ کر دی گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق سن داؤ نے عدالت میں اپنے خلاف بیشتر الزامات کی تردید کی تھی اور اپنے آپ کو، ’کمیونسٹ پارٹی کا زبردست حامی بتایا تھا۔‘ تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ان سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔
چین حالیہ برسوں میں ملک کے تاجروں اور کاروباری شخصیات کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور اس وقت اصول و ضوابط کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے تحت علی بابا، ڈیڈی اور ٹینسینٹ جیسی کمپنیوں کے خلاف تفتیش جاری ہے۔
ص ز / ع س (اے پی، اے ایف پی)