تاریخی تعلقات کے پس منظر میں سعودی شاہ کا دورہء امریکہ
29 جون 2010تیل کی برآمد کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ملک سعودی عرب کا امریکہ سے ناطہ اسی قدرتی دولت کے باعث خاصا گہرا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق صدر اوباما اور شاہ عبداللہ کی ملاقات میں بین الاقوامی سیاست اور معیشت سمیت دو طرفہ تعاون کے مختلف امور پر بات ہوگی۔
دونوں ممالک کے مابین دیرینہ تعلقات لگ بھگ آٹھ دہائیوں پر محیط ہیں۔ 1932ء میں جب شاہ عبدالعزیز نے جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھی تو اس کے اگلے سال ہی انہوں نے ایک امریکی کمپنی کے لئے تیل کی قیمت پر رعایت دی۔ شاہ عبدالعزیز کو ابن السعود بھی کہا جاتا ہے یعنی آنے والے تمام بادشاہوں کے والد۔ شاہ عبدالعزیز نے اپنے پہلے بیرونی دورے میں اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ سے سوئز کینال میں کھڑے امریکی بحری جہاز پر ملاقات کی تھی۔
امریکہ اپنے اس اتحادی کے ذریعے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے سیاسی و اقتصادی اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اوپیک میں شامل ایران اور وینزویلا جیسے ممالک تیل کی قیمت کے تعین اور سپلائی کے معاملات میں اسے ہدف بنانے کی تاک میں رہتے ہیں۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعے کے بعد تاریخی موڑ آیا۔ بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ ان حملوں میں سعودی شہریوں کا ملوث ہونا ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی آزادی پر قدغن اور کٹر اسلامی نظریات کے باعث یہ خطہ عسکریت پسندوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔
تاہم ریاض حکومت کی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں، تعلیمی نظام میں اصلاح، شدت پسندی کی ترغیب دینے والے افسران کو فارغ کرنے اور عسکریت پسندوں کو امن کی جانب مائل کرنے جیسے اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال ہوا ہے۔
شاہ عبد اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے مکالمے کے عمل کا بھی آغاز کیا ہے جسے مذہبی روا داری کی سمت میں بڑے قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
جہاں تک بین الاقوامی سیاست کا تعلق ہے تو شاہ عبداللہ 2002ء میں مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لئے اسرائیل کو ایک بڑی پیش کش کرچکے ہیں۔ شاہ عبداللہ نے آزاد فلسطینی ریاست کے بدلے اسرائیل کو عرب دنیا سے نارمل تعلقات کی پیش کش کی تھی۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما اسرائیل پر قیام امن کے لئے دباؤ بڑھائیں۔ خطےسے جڑی سیاست میں سعودی عرب عراق میں شیعہ فرقے کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے قدرے خائف دکھائی دیتا ہے۔
عالمی تجارت میں حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ سعودی عرب طویل عرصے تک امریکہ سے اسلحہ خریدتا رہا ہے تاہم حالیہ کچھ برسوں سے اس کا جھکاؤ جاپان، چین اور یورپی ممالک کی جانب بھی دیکھا جارہا ہے۔ امریکہ اب بھی سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : افسر اعوان