تبت کی بغاوت کی سالگرہ: نئی دہلی میں مظاہرہ
10 مارچ 2015بیجنگ حکومت کے خلاف 1959ء کی بغاوت کی سالگرہ کے موقع پر منگل کو نئی دہلی میں چینی سفارت خانے پر دھاوا بولنے اور اُس پر پتھراؤ کی کوشش کرنے والے مشتعل تبتی مظاہرین پر پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے تبتی مظاہرین کو بسوں میں سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور اُن پر تشدد کیا۔
اس موقع پر مظاہرین نے اپنے گالوں اور جسموں پر تبت کا پرچم پینٹ کیا ہوا تھا جبکہ کئی مظاہرین کے سینے ننگے تھے اور انہوں نے سیاہ ماسک پہن رکھے تھے۔ گرفتار ہونے سے قبل یہ تبتی مظاہرین آزادی کے نعرے بُلند کر رہے تھے اور انہوں نے ہاتھوں میں چین مخالف بینرز اُٹھا رکھے تھے۔
ایک بیس سالہ تبتی طالب علم ’ گیالتسن کونگا‘ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،“ ہم چین کی حکمرانی میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہم آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، چین کو تبت سے نکل جانا چاہیتے۔‘‘
سرخ ، نیلے اور پیلے رنگ کے تبتی پرچم کے ساتھ ایک سفید ٹی شرٹ میں ملبوس اس سرگرم طالب علم کا مزید کہنا تھا، ’’چین سے آزادی ہمارا واحد مطالبہ ہے۔‘‘
مقامی ذرائع کے مطابق تبتی مظاہرین پولیس کی کارروائی سے پہلے نئی دہلی میں قائم چینی سفارتخانے کی عمارت کے مرکزی دروازے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ اس علاقے سمیت چینی سفارتخانے پر سخت پہرہ لگایا گیا ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز نے اسے اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا۔
پولیس کے مطابق 100 سے زائد تبتی مظاہرین جن میں سرگرم خواتین بھی شامل تھیں، میں سے قریب سب ہی کو گرفتار کر لیا گیا۔
1959 ء میں جب چینی فوج نے تبت پر چڑھائی کر دی تھی، تب ہزاروں تبتی باشندے اپنے روحانی پیشوا دلائی لاما سمیت ملک سے فرار ہو کر بھارت آ گئے تھے۔ ان تبتیوں کی بھارت میں موجودگی بھارت اور چین کے مابین کشیدہ تعلقات میں مزید شدت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین ایک طویل فوجی سرحد اور علاقائی تنازعات چلے آرہے ہیں۔
اُدھر نیپال میں ہزاروں جلا وطن تبتی باشندوں نے تاریخ کے اس اہم واقعے کی یاد میں ایک پُر امن تقریب کا اہتمام کیا، جس میں انہوں نے دلائی لاما کی تصویر پر چڑھاوے چڑھائے اور نغمے گائے۔
کھٹمنڈو میں روایتی طور پر ہر سال بیجنگ حکومت کے خلاف 1959ء کی بغاوت کی سالگرہ احتجاجی مظاہرے کی شکل میں منائی جاتی رہی ہے تاہم اس برس تبتی برادری نے تبتی حکام کی طرف سے دباؤ میں اضافے کے سبب مظاہرے کے انعقاد سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اسٹوڈنٹس فار فری تبت کی ایک ترجمان ڈاکٹر زیرنگ کے مطابق 1959ء کے بعد سے اب تک ایک ملین سے زیادہ تبتی مارے جاچکے ہیں جبکہ ہزاروں قیدوبند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور تبتیوں کے متعدد مذہبی اور ثقافتی مقامات کو تباہ کردیا گیا ہے۔