ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل خاتمےکے سائے
6 اگست 2016ترکی میں گزشتہ ماہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے اس بغاوت میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر کے سکیورٹی فورسز کو مزید اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے ترکی میں جاری اس کریک ڈاؤن پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ انقرہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی بھی ملزم کے خلاف بالائے قانون کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ترکی کی صورت حال کے پیش نظر مہاجرین کی ڈیل کے تحت ترک باشندوں کو شینگن ممالک کی ویزا فری انٹری سے متعلق مذاکرات بھی متاثر ہوئے ہیں، اس کے علاوہ یورپی یونین کی رکنیت کےحصول کے لیے کی جانے والی ترک کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔
ہفتے کے روز ایک آسٹرین اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے یورپی کمشین کے صدر ژاں کلوڈ یُنکر نے کہا، ’’خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اب تک اس معاہدے کی کامیابی بہت غیرمستحکم دکھائی دی ہے۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اس ڈیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ینُکر کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ایسا ہوتا ہے، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ترکی سے یورپی یونین کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔‘‘
دوسری جانب یونانی وزیر مہاجرت یانِس موزالاس نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے، ’’بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی موجودہ تعداد یہ نہیں بتاتی کہ ترکی اس ڈیل پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔‘‘
خیال رہے کہ اسی راستے سے گزشتہ برس ایک ملین سے زائد افراد یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔ تاہم مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد مہاجرین کے اس بہاؤ میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد سخت ترین کریک ڈاؤن اور وہاں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر یورپی ردعمل کے بعد اس بات کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ ترکی اس ڈیل کو ختم کر سکتا ہے۔