1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں انسٹاگرام پر پابندی عائد کر دی گئی

2 اگست 2024

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ترکی کی 85 ملین کی آبادی میں انسٹاگرام کے 50 ملین سے زائد صارفین ہیں۔ اس پابندی کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم حکام نے انسٹا گرام پر اسماعیل ہنیہ سے متعلق پوسٹوں کو سنسر کرنے کا الزام لگایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4j2D9
ترک آبادی کی اکثریت انسٹا گرام کی صارف ہے
ترک آبادی کی اکثریت انسٹا گرام کی صارف ہےتصویر: Niklas Graeber/dpa/picture alliance

ترکی میں حکام نے آج جمعے کے روز ملک بھر میں انسٹاگرام تک رسائی پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کے بارے میں اب تک کوئی وضاحت کی گئی ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کب تک برقرار رہے گی۔ اس فیصلے کی وجہ سے ترکی میں بہت سے صارفین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے ذریعے شکایات کر رہے ہیں کہ ان کی انسٹا فیڈ کام نہیں کر رہی۔

ترکی نے انسٹاگرام کو کیوں بلاک کیا؟

ترکی میں ٹیلی کمیونیکیشن کی ریگولیٹری اتھارٹی بی ٹی کے نے تفصیلات بتائے بغیر اپنی ویب سائٹ پر لکھا،''انسٹاگرام کو دو اگست 2024 کو کیے گئے ایک فیصلے کے بعد بلاک کر دیا گیا ہے۔‘‘ تاہم یہ اقدام انقرہ حکومت کے ان الزامات کے بعد  سامنے آیا ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ انسٹا گرام فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے متعلق پوسٹوں کو بلاک کر رہا ہے۔

اسماعیل ہنیہ صدر ایردوآن کے قریب سمجھے جاتے تھے اور ان دونوں کے مابین آخری ملاقات اپریل میں ہوئی تھی
اسماعیل ہنیہ صدر ایردوآن کے قریب سمجھے جاتے تھے اور ان دونوں کے مابین آخری ملاقات اپریل میں ہوئی تھیتصویر: Murat Cetinmuhurdar/TUR Presidency/Anadolu/picture alliance

ترکی کے صدارتی دفتر میں مواصلات کے شعبے کے سربراہ اور حکومتی ترجمان، فرحتین التون نے بدھ کے روز ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''خالص اور سادہ الفاظ میں یہ سنسرشپ ہے۔‘‘ التون نے کہا کہ انسٹاگرام نے اپنے اس اقدام کے لیے کسی پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ نہیں دیا۔ انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے ابھی تک پابندی یا التون کے ریمارکس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اسماعیل ہنیہ اور ان کا ایک محافظ بدھ کو تہران میں  ہونے والے ایک حملے میں مارے گئے تھے، جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا تھا۔ ہنیہ ترک صدر رجب طیب ایردوان کے قریبی ساتھی تھے اور ان دونوں کی آخری ملاقات اپریل میں استنبول میں ہوئی تھی۔

جمعے کو ترکی میں حماس کے سیاسی سربراہ کے لیے یوم سوگ منایا جا رہا ہے کیونکہ ان کی ہلاکت کے بعد ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ غزہ میں جاری تقریباً 10 ماہ پرانی لڑائی میں جنگ بندی کے معاہدے کے امکان کو پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ حماس کو امریکہ، جرمنی اور اسرائیل نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے لیکن ترکی نے ایسا نہیں کیا ہوا۔

ایردوآن نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر اپنی تنقید کے ایک حصے کے طور پر اس حماس کو''آزادی کے جنگجو‘‘ قرار دیا ہے۔

ہنیہ کی نماز جنازہ تہران میں ادا کی گئی جبکہ ان کی تدفین دوحہ میں کی جائے گی
ہنیہ کی نماز جنازہ تہران میں ادا کی گئی جبکہ ان کی تدفین دوحہ میں کی جائے گی تصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

علاقائی تنازعات کے بڑھتے ہوئے خدشات

ایران اور حماس دونوں نے ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جس سے خدشہ ہے کہ غزہ کا تنازعہ خطے میں مزید پھیل سکتا ہے۔ حماس نے قطر میں ہنیہ کی تدفین کے موقع پر جمعے کو''غصے کا دن‘‘ منانے کا مطالبہ کیا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب ترکی نے سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی کو منقطع کیا ہو۔ ترک صدارت اور انتہا پسندی کے درمیان تعلق کے الزامات پر مبنی دو مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ویکی پیڈیا کو اپریل 2017 اور جنوری 2020 کے درمیان  بلاک کر دیا گیا تھا۔

اپریل میں فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے ترک حکام کی جانب سے انسٹاگرام کے ساتھ معلومات کا اشتراک کرنے سے روکنے پر  ترکی میں اپنے سوشل نیٹ ورک تھریڈزکو معطل کر دیا تھا۔ مقامی میڈیا  کی رپورٹس کے مطابق  ترکی کی 85 ملین کی آبادی میں انسٹاگرام کے 50 ملین سے زائد صارفین ہیں۔

ش ر⁄ ع ب (اے ایف پی،روئٹرز)

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟