ترکی میں ’علمی آزادی پر قدغن‘ کے خلاف طلبہ کا مظاہرہ
7 جنوری 2021ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے بوغازجی یونیورسٹی کے نئے ڈائریکٹر کی تقرری کے خلاف بدھ کے روز تیسرے دن بھی، کورونا وائرس کی وبا کے سبب اجتماعات پر عائد پابندیوں کے باوجود، ہزاروں طلبہ نے سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ پولیس نے بدھ کے روز 14 مظاہرین کو گرفتار کرلیا جس کے ساتھ گزشتہ پیر سے جاری مظاہروں میں اب تک کم از کم 36 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لیے منگل کے روز سے ہی طلبہ کے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کردیے تھے۔
مظاہرین ڈاکٹرملیح بولو کو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کے طور پر مقرر کرنے کے صدر ایردوآن کے فیصلے کو غیر جمہوری قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے صدر ایردوآن پر علمی آزادی پر قدغن لگانے کا الزام لگایا ہے۔
استنبول کے گورنر علی یرلیکایا نے بدھ کے روز تمام طرح کی میٹنگوں اورمظاہروں اور مارچ پر پابندی کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پابندی کووڈ انیس کو پھیلنے سے روکنے کے اقدام کے تحت عائد کی گئی ہے۔
ترک حکام نے کسی بھی طرح کے مظاہروں کو روکنے کے مقصد سے بوغازجی یونیورسٹی کے ارد گرد رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایک ہزار سے زائد مظاہرین نے استنبول کے ایشائی حصے کی جانب جانے سے قبل آبنائے باسفورس کے کنارے مظاہرہ کیا۔ بوغازجی یونیورسٹی شہر کے یورپی حصے کی جانب واقع ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کو منتخب کرنے کا حق طلبہ کو دیا جائے۔ انہوں نے گرفتار کیے گئے طلبہ کو رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ مظاہرین نے ایل جی بی ٹی کے حقوق کی حمایت میں قوس وقزح کے رنگوں والے پرچم بھی لہرائے۔ انہوں نے کچھ میٹالیکا نغمے بھی گائے کیونکہ ملیح بولو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں ہیوی میٹل بینڈ سننا پسند ہے۔
’مظاہرین کو کچل دیا جائے‘
انتہا پسند قوم پرست جماعت ایم ایچ پی کے ڈائریکٹر اور ایردوآن کے حکمراں اتحاد میں شامل دولت بحاج علی نے مظاہرین کے خلاف کارروائی پرزور دیتے ہوئے کہا کہ''مظاہرین قبل اس کے کہ مزید آگے بڑھیں انہیں کچل دینے کی ضرورت ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ ”جو لوگ یونیورسٹی کے ریکٹر کی نامزدگی کی آڑ میں ترکی میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ دہشت گردوں کے آلہ کار اور طلبہ کے بھیس میں علیحدگی پسند ہیں۔“
بحاج علی نے کہا کہ مظاہرین”ایک اور غیزی بہاریہ شروع کرنے کی کوشش" کر رہے ہیں۔ ان کا اشارہ 2013 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی طرف تھا۔
ترکی نے غیزی کے مظاہرین کو انتہائی سختی سے کچل دیا تھا جس کی عالمی برادری نے مذمت بھی کی تھی۔
صدر اردوان نے بوغازجی یونیورسٹی کے مظاہروں کے حوالے سے ابھی تک کوئی عوامی بیان نہیں دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کا مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا ریکارڈ ہے۔ اس میں استنبول میں پرائڈ مارچ پر پابندی اور حقوق نسواں کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغنے کے واقعات شامل ہیں۔
بوغازجی یونیورسٹی میں 1990کے عشرے سے سن 2016 تک ڈائریکٹروں کی تقرری بالعموم انتخاب کے ذریعہ ہوتی رہی ہے۔ سن 2018 کے بعد سے نئے صدارتی نظام کی وجہ سے سرکاری یونیورسٹی کے ڈائریکٹروں کی تقرری کا اختیار ایردوآن کو حاصل ہوگیا ہے۔
استنبول کی معروف بوغازجی یونیورسٹی بائیں بازو کے نظریات کے فروغ کے لیے جانی جاتی ہے جس کی وجہ سے ماضی میں بھی یہ حکومت کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ شام میں ترکی کی فوجی شمولیت کے خلاف 2018 میں ہونے والے مظاہروں کے بعد ترک حکام نے متعدد طلبہ کو گرفتار کرلیا تھا۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)