ترکی میں یوچیل آزاد، میرکل کا اظہار اطمینان
16 فروری 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے صحافی ڈینیز یوچیل کو مشروط رہائی مل گئی ہے۔ انہیں چودہ فروری سن دو ہزار سترہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگرچہ انہیں دہشت گردی اور پروپیگنڈا کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا تاہم ان پر اب سے پہلے کوئی باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔
ترکی میں مقید جرمن صحافی یوچیل رہا کر دیے گئے
جرمنی کی ترکی میں زیر حراست صحافی تک رسائی کل منگل کو
ڈینیز یوچیل کی گرفتاری اور ترک جرمن تعلقات
جمعے کے دن ترک میڈیا نے عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ استغاثہ نے چوالیس سالہ یوچیل پر باقاعدہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے اٹھارہ برس کی سزا دینے کی استدعا کی ہے۔ تاہم سولہ فروری کے دن ہی انہیں قید سے مشروط رہائی مل گئی۔ استنبول میں موجود اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا کہ یوچیل کو جب جیل سے رہا کیا گیا تو ان کی اہلیہ ان کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھیں۔
جرمن وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے رپورٹر یوچیل کو آزاد کر دیا گیا ہے۔ یوچیل کی گرفتاری کی وجہ سے ترک جرمن تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہو گئی تھی۔ اس تازہ پیشرفت کے بعد برلن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر انگیلا میرکل نے کہا، ’’یوچیل کی رہائی پر میں بھی اتنی ہی خوش ہوں، جتنا کہ دیگر جرمن باشندے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ترکی میں ابھی کچھ اور جرمن شہری بھی قید ہیں اور برلن حکومت ان کے لیے بھی شفاف عدالتی کارروائی کی توقع کرتی ہے۔
دوسری طرف ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ یوچیل کی رہائی سے جرمنی اور ترکی کے مابین پائے جانے والے کچھ اختلافات ضرور دور ہوئے ہوں گے۔ سرکاری میڈیا نے بن علی یلدرم کے حوالے سے مزید بتایا کہ انقرہ حکومت جرمنی کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔
واضح رہے کہ جمعرات کے دن ہی ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے جرمنی کا دورہ کیا تھا، جہاں برلن میں انہوں نے چانسلر انگیلا میرکل سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس دوران میرکل نے بن علی یلدرم سے کہا تھا کہ یوچیل کی غیرقانونی گرفتاری سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ تب ترک وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اس ترک نژاد جرمن صحافی کے مستقبل کا فیصلہ ملکی عدالتیں کریں گی نہ کہ انقرہ حکومت۔
یوچیل 1973ء میں جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔ ان کے پاس ترکی اور جرمنی دونوں ممالک کی شہریت ہے۔ وہ ترکی میں تعینات ہیں اور جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں ترک حکام نے 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت اور بعد میں کردوں کے خلاف سکیورٹی آپریشن سے متعلق ان کے ایک مضمون کے باعث مبینہ اشتعال انگیزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر قریب ایک سال تک کوئی باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔ ترکی میں آزاد صحافیوں کی کے پی 24 نامی ایک تنظیم کی مطابق تقریباً ڈیڑھ سو صحافی آج کل ترک جیلوں میں قید ہیں۔