1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کا ریفرنڈم، آسٹریا اور جرمنی میں سیاسی مہم میں مشکلات

5 مارچ 2017

ترک حکومت نے کہا ہے کہ وہ صدر رجب طیب ایردوآن کے اختیارات میں اضافے کے ریفرنڈم کے لیے جرمنی اور ہالینڈ میں اپنے جلسے جاری رکھیں گی۔ ان دونوں ممالک میں ریفرنڈم کے حق میں ترک سیاستدانوں کو جلسوں سے خطاب نہیں کرنے دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2YfBt
Türkei - Pro-Erdogan Demos in der Türkei
تصویر: DW/D. Cupolo

ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے اس طرح کے جلسوں پر پابندی کے حوالے سے جرمنی اور ہالینڈ کی حکومتوں کے رویوں کو غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ترکی سولہ اپریل کو کرائے جانے والے ریفرنڈم میں یورپی ممالک میں آباد ترک شہریوں کو متحرک کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا،’’ آپ میں سے کوئی بھی ہمیں روک نہیں سکتا۔ ہم ہر اس جگہ جا سکتے ہیں، جہاں ہم جانا چاہتے ہیں، اپنے شہریوں سے ملنے اور اجلاس کرنے‘‘۔

جرمنی میں دو مختلف جلسوں سے ترک وزیر اقتصادیات نہاد زیبکجی کو خطاب کرنا تھا، جنہیں منسوخ کر دیا گیا ہے۔ تاہم وہ آج اتوار کو کولون اور لیور کوزن میں دو مختلف تقریبات میں شرکت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان دونوں شہروں میں ترک باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

Türkei Mevlut Cavusoglu Außenminister
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولوتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici

جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل نے ترکی کے ساتھ اس تناؤ میں شدت سے خبردار کیا ہے۔ اخبار بلڈ آم سونٹاگ میں شائع ہونے والے ایک اپنے ایک ادارے میں گابریل نے لکھا،’’ہمیں دونوں ممالک کے مابین دوستی کی بنیاد کو ختم کرنے کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دینی چاہیے‘‘۔ وزیر خارجہ نے ترک سیاستدانوں کی جانب سے ایردوآن کے ریفرنڈم کے لیے جرمنی میں کیے جانے والے جلسوں سے خطاب پر مکمل پابندی کی حمایت نہیں کی ہے تاہم انہوں نے اس تناظر میں واضح قواعد و ضوابط وضح کرنے کی حمایت کی ہے،’’جرمنی میں اگر کوئی کسی جلسے جلوس سے خطاب کرنا چاہتا تو اسے قانون کا احترام اور شائستگی کو لازمی طور پر ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔‘‘

اس دوران آسٹریا کے چانسلر کرسٹیان کیرن نے مطالبہ کیا ہے کہ ایردوآن کے لیے ریفرنڈم کے لیے یورپ بھر میں کیے جانے والے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کی جائے۔ اپنے ایک انٹرویو میں کیرن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں یورپ کا ایک مشترکہ طرز عمل ہونا چاہیے اور یہی اس مسئلے کا مناسب ترین حل ہے۔ ان کے بقول اس طرح کوئی ایک ملک جیسے کہ جرمنی ترکی کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ اس موقع پر آسٹریا کے چانسلر نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت کے مذاکرات کو بھی فوری طور روکتے ہوئے اس ملک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے۔