ترکی کا سخت انٹرنیٹ قانون: حکومت پر تنقید
7 فروری 2014ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایردوآن حکومت ملک میں انٹرنیٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس قانون کی منظوری سے پہلے ہی ترکی میں بہت سے حلقے اس بارے میں مسودہء قانون کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یوں انقرہ حکومت رائے اور اس کے اظہار کی آزادی کو محدود کرنے کی جستجو میں ہے۔ لیکن ترک پارلیمان نے یہ قانون منظور کر لیا اور اس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ پر ریاستی کنٹرول بھی واضح طور پر زیادہ ہو گیا۔
اب ترک حکام کسی عدالتی فیصلے کے بغیر بھی ملکی صارفین کی مختلف انٹرنیٹ ویب سائٹس تک رسائی کو روک سکیں گے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ سروسز مہیا کرنے والے ٹیلی کمیونیکیشن اداروں کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے صارفین سے متعلق ڈیٹا کو دو سال تک محفوظ رکھیں۔
وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی قدامت پسند سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے پارلیمان کے اکثریتی ارکان کی تائید سے پانچ اور چھ فروری کی درمیانی رات منظور کیے گئے اس نئے قانون پر جن بڑی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے کھل کر تنقید کی گئی ہے، ان میں عالمی سطح پر آزادیء صحافت کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز بھی شامل ہے۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی جرمن شاخ کے ذرائع ابلاغ سے متعلقہ امور کے ماہر کرسٹوف ڈرائیر نے ترکی میں اس متنازعہ انٹرنیٹ قانون کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے برلن میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اس قانون کے ساتھ بہت سے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ پر کنٹرول اور سنسرشپ کے امکانات واضح طور پر زیادہ ہو گئے ہیں۔ اب مختلف ویب سائٹس کو ان پر دستیاب معلومات کی بناء پر بلاک کیا جا سکے گا اور یہ ہتھیار ممکنہ طور پر سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے بعد انٹرنیٹ سے متعلق ترک حکام کے فیصلوں کی وہ اصولی نگرانی بھی خاصی مشکل ہو جائے گی، جو کسی بھی آئینی ریاست میں قانونی تقاضوں کے مطابق یقینی ہونی چاہیے۔
کیا انقرہ حکومت نے انٹرنیٹ نگرانی سے متعلق اس نئے قانون کے نفاذ کا فیصلہ ماضی میں حکومت مخالف مظاہروں اور حالیہ وسیع تر کرپشن اسکینڈل کے پس منظر میں کیا ہے، اس بارے میں کرسٹوف ڈرائیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چند ماہ پہلے ترکی میں حکومت کے خلاف جو مظاہرے ہوئے تھے، ان کے بعد انٹرنیٹ کی زیادہ سخت ریگولیشن کا اعلان کیا گیا تھا۔ تب ایسے افراد کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئی تھیں، جو ان مظاہروں سے متعلق معلومات کی ترسیل میں فعال تھے۔ ترکی میں عام شہریوں کی ماضی میں یوٹیوب تک رسائی اس لیے کئی مرتبہ معطل کر دی گئی تھی کہ تب ایسی ویڈیوز انٹرنیٹ پر گردش میں تھیں، جن میں جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک پر تنقید کی گئی تھی۔‘‘
کرسٹوف ڈرائیر کے بقول انٹرنیٹ کی نگرانی سے متعلق نیا ترک قانون آزادیء رائے اور آزادیء اظہار کو کافی حد تک مشکل بنا سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ سچ ہے کہ ترکی میں ایسے امکانات کے سیاسی استعمال کی قابل افسوس روایت پائی جاتی ہے۔