1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کے تمام مطالبات پورے نہیں کیے جا سکتے، سویڈن

9 جنوری 2023

سویڈش وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن بننے کی خاطر ان کا ملک ترکی کی طرف سے کیے جانے والے تمام مطالبات پورے نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سے جو ہو سکتا تھا، وہ کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4LvHN
Britischer Panzer Challenger 2
تصویر: LCpl Spencer/Ministry of Defence/Crown/PA/picture alliance

 مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکنیت کے خواہش مند شمالی یورپی ملک سویڈن نے ترکی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس دفاعی اتحاد میں اپنی شمولیت کے لیے ترکی کی طرف سے کی جانے والی سبھی شرائط پوری نہیں کر سکتا۔

سویڈش وزیر اعظم اُلف کرِسٹرسن نے ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن نے اس حوالے سے اپنے تمام وعدے پورے کر دیے ہیں اور اس بات کی خود ترکی نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ لیکن اس کے برعکس انقرہ میں ترک قیادت کی طرف سے ابھی تک ایسے مطالبات کیے جا رہے ہیں، جو سٹاک ہوم حکومت نہ تو پورے کر سکتی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے۔

سویڈن کا مؤقف کیا ہے؟

اس کانفرنس میں نیٹو کے چیف ژینس اشٹولٹن برگ بھی شریک تھے، جنہوں نے اصرار کیا کہ روس کی طرف سے یوکرین پر حملے اور  مشرقی یورپ میں روسی جارحیت کے باعث کشیدہ صورتحال میں ضروری ہو گیا ہے کہ سویڈن اور فن لینڈ بھی اس عسکری اتحاد کے رکن بن جائیں۔

سویڈن اور فن لینڈ نیٹو معاہدے پر عمل نہیں کر رہے، ترکی

ترکی کی فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو رکنیت سے روک دینے کی دھمکی

دنیا کے اس سب سے بڑے عسکری اتحاد میں سویڈن کی رکنیت کے لیے نیٹو کے تمام رکن ممالک کا متفق ہونا لازمی ہے۔ تاہم ترکی نے تاحال اس سلسلے میں حتمی آمادگی ‌ظاہر نہیں کی۔

نیٹو کے رکن تیس ممالک نے سویڈن اور فن لینڈ کی اس مغربی دفاعی اتحاد میں شمولیت کے پروٹوکول پر  گزشتہ برس پانچ جولائی کو دستخط کیے تھے۔ ان ممالک کی رکنیت نیٹو میں سرد جنگ کے دور کے بعد کی اہم ترین اسٹریٹیجک توسیع ہو گی۔

شمالی یورپی ممالک سویڈن اور فن لینڈ ماضی میں ہمیشہ ہی غیر جانب دار رہے تھے۔ پھر کچھ ہی عرصہ قبل ان دونوں یورپی ریاستوں  نے باقاعدہ درخواستیں دے دی تھیں کہ انہیں بھی مغربی دفاعی اتحاد کا رکن بنایا جائے۔

ترکی کیا چاہتا ہے؟

ترکی کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سٹاک ہوم حکومت کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف انقرہ کی جنگ میں اس کی اتحادی بن جائے۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ایسے تمام عناصرکے خلاف ہو جائے، جنہیں ترکی اپنا 'دشمن‘ قرار دیتا ہے۔

گزشتہ برس جون میں فن لینڈ، سویڈن اور ترکی نے ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ انقرہ کے تحفظات کو دور کیا جا سکے۔ ترکی نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ دونوں ممالک ' کرد جنگجوؤں‘  اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ساتھ روابط رکھنے والے افراد کو پناہ فراہم کر رہے ہیں۔

نیٹو میں شمولیت: سویڈن ترکی کے سکیورٹی خدشات دور کرنے کے لیے تیار

سویڈن اور فن لینڈ کے ساتھ بات چیت متوقع سطح پر نہیں، ترک صدر

واضح رہے کہ انقرہ سمیت امریکہ اور یورپی یونین پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔گزشتہ برس دسمبر کے اوائل میں ترکی نے سویڈن کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

تاہم اسی ماہ کے اواخر میں سویڈن کی سپریم کورٹ نے ایک ایسے ترک صحافی کو ترکی کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا، جس کا تعلق مبینہ طور پر جلا وطن ترک مذہی رہنما فتح اللہ گولن سے بتایا جاتا ہے۔

ترک حکام کے مطابق فتح اللہ گولن دراصل صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف ناکام فوجی بغاوت پر اکسانے والوں میں سے ایک تھے۔ اس واقعے کے بعد ترکی نے سویڈن پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

ع ب، ع ا (خبر رساں ادارے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں