ترک جرمن کشیدگی: ایردوآن اب میرکل سے ذاتی ملاقات کے متمنی
11 جنوری 2018ترکی کے شہر انطالیہ سے جمعرات گیارہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ترک وزیر خارجہ مولود چاوُش اولو نے بدھ دس جنوری کو رات گئے جرمن صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں کہا کہ جرمنی میں نئی مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق تاحال جاری مذاکرات کی تکمیل کے بعد ترک صدر ایردوآن چاہیں گے کہ وہ چانسلر میرکل کو ترکی کے دورے کی دعوت دیں یا خود جرمنی کا دورہ کریں، تاکہ جرمن سربراہ حکومت کے ساتھ ذاتی طور پر ملاقات میں کھل کر بات چیت کی جا سکے۔
جرمنی اور ترکی تعلقات خوشگوار بنانے کی کوشش میں
امریکا اور اسرائیل پاکستان اور ایران میں ’مداخلت‘ کر رہے ہیں، ایردوآن
ایردوآن یورپی یونین کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں
ترکی اور جرمنی کے باہمی تعلقات 2016ء میں ترکی میں ایک ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے بہت خراب ہو چکے ہیں۔ مسلح بغاوت کی اس کوشش میں ترک افواج کے ایک دھڑے نے صدر ایردوآن کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کاوش کی تھی، جو ناکام بنا دی گئی تھی اور اس دوران بہت سے افراد مارے بھی گئے تھے۔
اس ناکام بغاوت کے بعد صدر ایردوآن نے اس کی ذمے داری امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کی تھی اور ساتھ ہی جرمنی پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ برلن کی طرف سے فتح اللہ گولن کے حامیوں کو پناہ دی جا رہی ہے۔
فلسطین کے لیے ترک سفارت خانہ جلد ہی، لیکن ’یروشلم میں‘
فوجی مشقوں میں ’دشمن‘ اتاترک، ایردوآن: نیٹو نے معافی مانگ لی
ایردوآن ترکی کو ’فاشزم‘ کی جانب لے جا رہے ہیں، یوچیل
اس کے علاوہ ترکی میں جولائی 2016ء سے لے کر اب تک چند صحافیوں سمیت کئی جرمن شہریوں کو دہشت گردی سے متعلق ایسے الزامات کے تحت گرفتار بھی کیا جا چکا ہے، جس پر جرمن حکومت نے شدید تنقید کی تھی۔
یہ برلن اور انقرہ کے مابین اسی کھچاؤ کی انتہا تھی کہ گزشتہ برس جرمنی نے اپنے ہاں چند ترک حکومتی وزراء کو ترک نژاد باشندوں اور ترک شہریوں کے کئی سیاسی جلسوں سے خطاب کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔ اس پر صدر ایردوآن نے اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ چند جرمن سیاستدانوں کا ’رویہ نازیوں کا سا‘ ہے۔
انقرہ اور برلن کے دوطرفہ تعلقات میں ابھی چند روز قبل ہی کچھ برف اس وقت پگھلی تھی جب ترک وزیر خارجہ چاوُش اولو نے جرمنی کا دورہ کیا تھا اور اس دوران اپنے جرمن ہم منصب زیگمار گابریئل کے ساتھ ملاقات میں بہت تفصیلی بات چیت بھی کی تھی۔ اس دوران جرمن وزیر خارجہ نے اپنے ترک ہم منصب کو اپنے آبائی شہر کے دورے کی دعوت بھی دی تھی۔
ایردوآن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر تیار نہیں، مارٹن شُلس
جرمنی میں ترک شہری محتاط رہیں، انقرہ کی ہدایت سے نیا تناؤ
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ترک وزیر خارجہ کے بقول ترکی میں جن جرمن صحافیوں یا انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، ان کی حراست کی کوئی سیاسی وجوہات نہیں تھیں، جیسا کہ برلن کی طرف سے الزامات لگایا جاتا ہے۔
چاوُش اولو نے انطالیہ میں جرمن صحافیوں کو بتایا کہ جو معاملات قانونی نوعیت کے ہیں اور جن میں کسی بھی طرح کی ملکی حکومتی مداخلت کے بغیر فیصلہ صرف ترک عدلیہ کو کرنا ہے، ان معاملات کا ترک جرمن روابط سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ترک جرمن تعلقات خراب ہونا چاہییں۔