ترک صدر ایردوآن شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کو تیار
8 جولائی 2024ترکی اور شام کے درمیان تقریباً بارہ سال قبل سفارتی تعلقات اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب شام میں ہونے والے مظاہروں نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی تھی۔ ترکی نے شمال مغرب میں مسلح اپوزیشن گروپوں کی حمایت کی تھی، جو شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے معزول کرنا چاہتے تھے۔
اس سے قبل تک ایردوآن اور اسد کے درمیان نہایت قریبی تعلقات تھے۔ حتی کہ دونوں رہنما اور ان کے اہل خانہ ایک دوسرے کے ملک میں چھٹیاں گزارا کرتے تھے۔
شام کا ’ماضی، حال اور مستقبل عربیت‘سے جڑا ہے، بشار الاسد
روس اور مغرب دونوں پر یکساں اعتماد ہے، ترک صدر ایردوآن
گزشتہ ہفتے دونوں نے کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اپنی رضامندی کا اشارہ دیا تھا۔
برلن میں ترکی اور نیدرلینڈز کے درمیان یورپی چمپئن شپ فٹ بال کا کوارٹر فائنل مقابلہ دیکھنے کے بعد اتوار کو وطن واپس لوٹتے ہوئے ایردوآن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،"ترکی اور شام کے درمیان دشمنی نہیں تھی۔ ہم اسد کے خاندان کے ساتھ ایک فیملی کے طورپر ملتے تھے۔"
بشار الاسد بس ایک قدم آگے بڑھائیں...
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ایردوآن کا مزید کہنا تھا،"جب ہم ہر جگہ ثالثی کی بات کرتے ہیں تو اس کے ساتھ کیوں نہیں جو ہماری سرحد کے ساتھ ہے، اس کے ساتھ بھی بات کی جائے۔"
کیا ترکی شامی پناہ گزینوں کی غیر قانونی ملک بدری کررہا ہے؟
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کی باتیں ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب ترکی کو شدید معاشی بدحالی اور شام کے لاکھوں پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
ترک میڈیا نے ترکی کے صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق رجب طیب ایردوآن نے شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،"ہم (اسد کو) اپنی طرف سے دعوت بھیجیں گے۔ اس دعوت کے ساتھ ہی ہم ترکی اور شام کے ساتھ تعلقات کو اسی دور میں واپس لے جائیں گے جیسے وہ ماضی میں تھے۔" انہوں نے کہا کہ ہم شامی صدر اسد کو کسی بھی وقت دعوت بھیج سکتے ہیں۔
ترک صدر نے کہا کہ انقرہ دمشق کی جانب سے کسی بھی مثبت اقدام کا بہتر جواب دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ سودانی اس میں سہولت کار کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
رجب طیب اردوآن کا کہنا تھا،"اب ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں، جہاں اگر بشارالاسد ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو ترکی کے ساتھ تعلقات بہتر ہو جائیں گے اور ہم بھی ان کے تئیں اسی اپروچ کا مظاہرہ کریں گے۔"
ایردوآن نے جون میں بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو بحال کرنے کے لیے بشارالاسد سے ملاقات کے امکانات کو مسترد نہیں کیا تھا۔
شامی پناہ گزینوں کا مسئلہ
تاہم شامی حکام نے بارہا کہا ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات صرف اسی صورت میں معمول پر آسکتے ہیں جب انقرہ باغیوں کے قبضے والے شمال مغربی علاقے سے ہزاروں فوجیوں کو نکالنے کے لیے تیار ہو جائے۔
خیال رہے کہ شمالی شام میں ترک فوجیوں کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے۔ ترکی نے وہاں اپنے فوجی اس وقت بھیج دیے تھے جب سرحد پار سے عسکریت پسندوں کی کارروائیاں تیز ہوگئی تھیں اور انقرہ کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
ترکی میں شامی پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی ایک متنازع معاملہ ہے۔ اس وقت تقریباً 32 لاکھ شامی پناہ گزین ترکی میں موجود ہیں۔
گزشتہ ہفتے شامی پناہ گزینوں کے خلاف پرتشدد واقعات پیش آئے تھے جس میں ترک شہریوں نے شامی پناہ گزینوں کی ملکیت والی عمارتوں اور املاک پر حملے کیے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
ترکی کے بعض سیاست دان بھی شامی پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لیے عوام سے وعدے کرتے ر ہتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن کے دوران بھی اس طرح کے وعدے کیے گئے تھے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)