ترک وزیر اعظم کا امریکی سفارتکاروں پر عیب گوئی کا الزام
2 دسمبر 2010ان خفیہ پیغامات میں ترک وزیر اعظم سے متعلق یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے سوئس بینکوں میں کھاتے ہیں۔ ان پیغامات کے مطابق وہ تحکم پسند ہیں اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جبکہ اسلام پسندوں کی مدد سے حکومت چلا رہے ہیں۔
انقرہ میں تعینات سابق امریکی سفیر ایرک ایڈیلمان نے 2004ء میں اپنی حکومت کے نام پیغام میں کہا تھا، ’ہمیں دو ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ ایردوان کے سوئس بینکوں میں آٹھ اکاؤنٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ دولت شادی میں دئے جانے والے تحائف سے حاصل ہوئی ہے، جو مہمانوں نے ان کے بیٹے کو دئے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ میں ان کے چار بچوں کی تعلیم کے اخراجات ایک ترک بزنس مین نے اٹھا رکھے ہیں۔‘
رجب طیب ایردوان نے بدھ کو ایک بیان میں کہا، ’امریکہ کو اپنے سفارتکاروں کا احتساب کرنا چاہئے، جن کی عیب گوئی کی ذمہ داری واشنگٹن حکومت پر عائد ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان سفارتی عہدے داروں نے دوسروں کے بیانات کی غلط تشریح کی ہے۔ ایردوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ان کا ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزامات ثابت ہو جائیں تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ ایردوان نے یہ بھی کہا کہ ترکی بعض امریکی سفارتکاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر غور کر رہا ہے۔
ان پیغامات میں ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ ترک حکام نے قبل ازیں ان پیغامات کو حقیقت سے عاری قرار دیا تھا۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے ترکی کے ایک اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تنازعے پر امریکی صدر باراک اوباما نے انقرہ میں اپنے ہم منصب عبداللہ گُل اور وزیر اعظم ایردوان سے فون پر بات کی ہے، جس کا مقصد ان کے غصے کو ٹھنڈا کرنا بتایا گیا ہے۔
وکی لیکس کی جانب سے مختلف ممالک میں تعینات امریکی سفارتکاروں کے ان خفیہ پیغامات سے امریکہ اور ترکی کے درمیان پیچیدہ اور مشکل تعلقات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ دونوں ممالک مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ارکان ہیں۔ ان پیغامات میں امریکی سفارتی حلقوں نے انقرہ حکومت کی مغربی تشریق پر تحفظات ظاہر کئے ہیں جبکہ وہ ترک حکام کے ساتھ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر اختلافات بھی رکھتے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ