تھائی لینڈ کی ’صراحی دار گردن‘ والی خواتین کی وبا کے دوران جدوجہد
کورونا کی وبا نے تھائی لینڈ کی سیاحت کی صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔ تھائی لینڈ کی کیان برادری میں لمبی گردن کے لیے مشہور خواتین غیر ملکی سیاحوں کی واپسی کی منتظر ہیں۔
ایک ویران گاؤں
کیان گاؤں، ایک مقبول سیاحتی مقام، شمالی تھائی لینڈ کے صوبہ چیانگ مائی کے ضلع مائے ریم کے قریب واقع ہے۔ یہ گاؤں لمبی گردن والی خواتین کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں دنیا بھر کے سیاحوں آمد ورفت رہتی ہے۔ تاہم کورونا وبا نے اس گاؤں کو سیاحوں سے محروم کردیا ہے۔
صراحی دار گردن: خوبصورتی کا معیار
اس گاؤں کے زیادہ تر رہائشیوں کی طرح 32 سالہ مو ای کا تعلق بھی کیان نسل سے ہے۔ یہاں لڑکیاں اپنی گردن لمبی کرنے کے لیے پانچ برس کی عمر سے گردن میں کڑے پہننا شروع کر دیتی ہیں۔
ٹکٹ دستیاب، خریدار غائب
گاؤں کے داخلی راستے پر ٹکٹ اسٹینڈ خالی پڑا ہے۔ کیونکہ، سیاحوں کی آمد رُک گئی ہے۔ کورونا وبا پھیلنے سے قبل یہاں ہر روز ایک میلے سا سما رہتا تھا اور زیادہ تر چینی سیاح آتے تھے۔
خالی راستے
تھائی لینڈ کے مقامی سیاحوں کی نسبت غیر ملکی سیاح کیان خواتین کی لمبی گردن کو دیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مو ای کی آمدن سیاحوں پر منحصر ہے۔ وہ معمول کی صورتحال کی واپسی کے لیے منتظر ہیں۔
مشکل گزر اوقات
مو ای اپنی بانس کی جھونپڑی کے سامنے چھوٹے سے صحن میں گھر والوں کے لیے کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جلا رہی ہیں۔ وہ انتہائی سادہ کھانا پکا رہی ہیں، جیسے کیلے اور چاول۔ ان کے پاس دیگر اجزاء خریدنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔
بچوں کے لیے فکرمند
مو ای دو بچوں کی والدہ ہیں، جن کی عمر دو اور چھ برس ہے۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے فکرمند رہتی ہیں۔ مو ای کا شوہر زراعت اور مزدوری کا کام کرتا ہے۔ اب گھر کا سارا خرچہ اُسی کے کندھوں پر ہے۔
امداد پر انحصار
ایک امدادی تنظیم مو ای اور گاؤں کی دیگر خواتین کو امداد بھی فراہم کرتی ہے۔ مو ای کے مطابق کورونا وبا شروع ہونے سے قبل وہ ہر روز 600 بھات یعنی 16 سے 20 ڈالر تک کماتی تھیں۔ اب ان کی آمدن صفر ہے۔
گاؤں سے نقل مکانی کا آغاز
اس گاؤں سے نقل مکانی کرنے والی ایک فیملی نے یہ بھالو یہیں چھوڑ دیا۔ کورونا وائرس کے خوف اور روزگار کی تنگی کی وجہ سے انہوں نے یہ گاؤں چھوڑ دیا۔ کیان برادری کے زیادہ تر افراد کا تعلق میانمار سے ہے۔ ان میں سے بہت سارے افراد واپس لوٹ چکے ہیں۔
گاہکوں کا انتظار کرتے تحائف
سیاحوں اور گائیڈڈ ٹورز کی غیر موجودگی کے باوجود مو ای ہر روز یہاں سووینیئرز سجاتی ہیں۔ اور امید کرتی ہیں کہ سیاحت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگا۔ ان کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔