تین صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام میں تاخیر: مسئلہ کیا ہے؟
4 جون 2018تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہیں ہو پا رہا ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ طول پکڑ رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں اگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہ ہوا اور نگراں حکومتوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو کرنا پڑا ، تو ای سی پی بہت بڑے امتحان میں پڑ جائے گی کیونکہ ملک میں سیاسی درجہء حرارت بڑھا ہوا ہے اور ای سی پی کے لیے تمام سیاسی فریقوں کو خوش کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
نون لیگ پنجاب میں اس تاخیر کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو قرار دیتی ہے۔ نون لیگ کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے پنجاب میں نگران حکومت کے قیام میں تاخیر کی وجوہات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہماری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نے کوئی متنازعہ نام تجویز نہیں کیا۔ لیکن پی ٹی آئی نے ایسے لوگوں کے نام دیے، جو کھلے عام ہمارے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ یقینا ًیہ ایسا کسی کے اشارے پر کر رہے ہیں کیونکہ اپنے بل بوتے پر تو یہ جلسے میں لوگ بھی نہیں لا سکتے۔ ابھی کراچی میں انہوں نے جلسہ کیا، جہاں عمران خان کے جلسے میں صرف اسی لوگ تھے۔‘‘
خان کا کہنا تھا کہ اگر اتفاق نہیں ہوا تو معاملہ ای سی پی کے پاس جائے گا، ’’پھر ای سی پی جو بھی فیصلہ کرے گی سب کو قبول کرنا پڑے گا کیونکہ آئینی طریقہ یہی ہے کہ پہلے قائد ایوان اور قائدِ حزب اختلاف اتفاق پیدا کریں، پھر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے اور وہاں بھی فیصلہ نہ ہو تو پھر معاملہ ای سی پی کے پاس جاتا ہے۔‘‘ لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اگر پنجاب میں اگر کوئی پی ٹی آئی کا تجویز کردہ نام ای سی پی نے منظور کیا تو پھر نون لیگ احتجاج کی طرف جا سکتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکڑ خالد جاوید جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک طرف نون لیگ کے رہنماوں کے خلاف دھڑا دھڑ مقدمات بن رہے ہیں، ان کا راستہ روکا جا رہا ہے اور دوسری طرف اگر اوریا مقبول جان جیسے لوگ پنجاب میں نگراں وزیرِ اعلیٰ بنا دیے جائیں تو پھر الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔‘‘
لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر احسن رضا کے خیال میں اگر نگران حکومت کا فیصلہ ای سی پی کو کرنا پڑا تو وہ بہت بڑی مشکل میں پھنس جائے گی، ’’مسئلہ یہ ہے کہ کیا ای سی پی غیر سیاسی قوتوں کا دباؤ برداشت کر کے کوئی ایسا بندہ منتخب کرے گی جو نون لیگ کو قابلِ قبول ہو؟ ایک طرف سے ممکنہ طور پر ای سی پی پر غیر سیاسی قوتوں کا دباؤ ہوگا اور دوسری طرف ن لیگ کسی ایسے نام کو تسلیم نہیں کرے گی، جو پی ٹی آئی کے قریب ہو۔ ایاز امیر اور اوریا مقبول جان دونوں ہی بہت شدت سے ن لیگ کی مخالفت کرتے رہیں ہیں تو پارٹی انہیں کیسے تسلیم کر لے گی۔ اگر ان کو نگران بنایا گیا تو ن لیگ بہت شور مچائے گی اور الیکشن کے بعد ن لیگ اپنی شکست کا سارا ملبہ ای سی پی پر ڈالے گی۔‘‘
پی ٹی آئی اس تاخیر کے الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ پارٹی کے ایک مرکزی رہنما سینیٹر فیصل جاوید خان نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایاز امیر اور حسن عسکری کے نام، جو ہم نے دیے ہیں، وہ عوام کی نظر میں متنازعہ نہیں ہیں۔ وہ ن لیگ کی نظر میں متنازعہ ہیں کیونکہ ن لیگ ہمیشہ اپنے ایمپائر کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہیں۔ انہیں غیر جانبدار لوگ پسند نہیں ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں نجم سیٹھی کو وہ لائے اور بعد میں انہیں پی سی بی کا چیئرمین بنادیا۔ ہم تاخیر کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ تاخیر انہوں نے کی اور اب معاملہ ای سی پی کے پاس جائے گا۔‘‘
ملک میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ نگراں حکومتوں کی تشکیل میں تاخیر اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہو رہی ہے لیکن بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما انوار الحق کاکڑ اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں، ’’اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کا تاثر وہ دے رہے ہیں، جو خود جنرل جیلانی کی گود میں پل کر بڑے ہوئے اور ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہے۔ ان کی یہ حالت ہے کہ آج بھی اگر اسٹیبلشمنٹ ان کو دانا ڈالے تو یہ ان کے آگے سجدے تک کرنے کو تیار ہوجائیں گے۔ جہاں تک نگراں حکومت کی تشکیل کا تعلق ہے تو یہ ایک آئینی عمل ہے، جو چل رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہیں ہوا تو اب معاملہ ای سی پی کے پاس جائے گا اور ہم سب اسے قبول کریں گے۔‘‘
نگران حکومت کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اے این پی کے پارلیمانی رہنما سردار حسین بابک اس تاخیر کا ذمہ دار
پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف کو ٹھہراتے ہیں، ’’ان دونوں جماعتوں نے ایک ارب پتی کے ساتھ ساز باز کر کے اسے نگراں وزیرِ اعلیٰ بنانے کی کوشش کی تھی۔ حزب اختلاف کے رہنما نے پی پی پی، اے این پی اور قومی عوامی وطن پارٹی کے رہنماوں سے کوئی مشاورت نہیں کی اور بعد میں وزیرِ اعلٰی اور قائدِ حزب اختلاف میں بھی اتفاق نہیں ہوا۔ اب یہ معاملہ ای سی پی میں جائے گا، جہاں ہم امید کرتے ہیں کہ مناسب شخص کو نگراں وزیرِ اعلیٰ بنایا جائے گا۔‘‘
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجہیہ الدین نے اس مسئلے کے قانونی نکات کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا ،’’ای سی پی کے پانچ ارکان ہیں۔ ان میں سے تین ارکان جس نام پر بھی اتفاق کریں گے وہ متعلقہ صوبے کا وزیرِ اعلی بنا دیا جائے گا۔