تیونس اور مصر میں احتجاجی مظاہرے جاری
26 جنوری 2011تيونس کی سب سے بڑی ٹريڈ يونين کے مطابق حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں ميں حصہ لينے والوں کی تعداد ايک لاکھ تک تھی جبکہ غير وابستہ ذرائع کے مطابق مظاہرين تقريباً 50 ہزار تھے۔
عبوری حکومت تيونس پر 23 سال تک حکمرانی کرنے والے سابق صدر بن علی کے خاندان کے 33 اراکين کو گرفتار کر چکی ہے اور وزير قانون Chebbi نے کہا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہيں ہے۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ شہريوں کو احتجاج کرنے اور اپنی رائے ظاہر کرنے کی آزادی تو ہے ليکن آزادی اور انتشار اور ہنگاموں کے درميان فرق ہے۔
ملکی دارالحکومت تيونس میں سرکاری دفاتر والے علاقے ميں مظاہروں کا بدھ کے روز چوتھا دن تھا۔ مظاہرين نے سابق حکومت سے ہر قسم کا تعلق ختم کرنے کا مطالبہ کيا۔ تاہم تيونس کے بہت سے شہری بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پھيلنے والی افراتفری اور ہنگاموں سے بھی بيزار نظر آتے ہيں۔
عبوری حکومت کی حمايت ميں بھی مظاہرے ہوئے ہيں اور ملک ميں اقتصادی سرگرميوں کو معمول پر لانے کے مطالبات بھی کئے جا رہے ہيں۔ ملک ميں اس وقت اتنی زيادہ جمہوری آزادياں دے دی گئی ہيں، جن کی مثال اس ریاست کی تاريخ ميں نہيں ملتی۔ اسی دوران سن 1999 سے وزير اعظم کے عہدے پر فائز محمد غنوشی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ آئندہ عام اليکشن تک وزير اعظم رہيں گے۔
مصر ميں بھی کئی شہروں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرين صدر حسنی مبارک سے ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہيں۔ انہيں اميد ہے کہ وہ تيونس کی طرح سے ویسی ہی طاقتور تحريک چلا سکتے ہيں، جس کے نتيجے ميں تيونس کے صدر بن علی کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ وہ ايمرجنسی قوانين کے خاتمے کا مطالبہ بھی کر رہے ہيں، جن کے تحت حکومت کی اجازت کے بغير کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں پر پابندی ہے اور حکومت وجہ ظاہر کیے بغير کسی کو بھی گرفتار بھی کر سکتی ہے۔
بدھ کے روز مصر ميں مظاہرين نے صدر حسنی مبارک اور اُن کے بيٹے جمال کی تصاوير بھی پھاڑ ديں، جن کے بارے ميں خيال کیا جاتا ہے کہ انہيں صدر کا جانشين بنانے کی تيارياں ہو رہی ہيں۔ ہنگامے مصر کے کم ازکم 16 شہروں ميں پھيل گئے ہيں۔ پوليس مظاہرين کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گيس اور تيز دھار والے پانی کے پائپ استعمال کر رہی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک