1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس: صدارتی محل کےگرد جنگ کی صورت حال

17 جنوری 2011

تیونس کی فوج اور ملک چھوڑ کر جانے والے صدر زین العابدین بن علی کے وفادار سکیورٹی گارڈز کے درمیان صدارتی محل کے اردگرد خاصی زور دار جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

https://p.dw.com/p/zyTV
تصویر: AP

تیونس میں فعال عبوری حکومت کا قیام آج عمل میں آسکتا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق دارالحکومت تیونس کے شمال میں کارتھیج نامی علاقے میں واقع صدارتی محل کے اردگرد ہونے والی جھڑپوں میں بھاری گولہ بارود کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ سکیورٹی کے اعلیٰ اہلکاروں کے مطابق صدارتی محل میں صدر کے حامی ایک طرح سے مورچہ بند تھے۔ اسی طرح مرکزی اپوزیشن جماعت PDP کے صدر دفتر کے قریب بھی چند مسلح افراد کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعت کا دفتر وزارت داخلہ کی عمارت کے قریب ہے۔ کئی اہم افراد کی گرفتاریوں کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔ ان میں فرار ہونے والے صدر کی سکیورٹی کے سربراہ علی شریعتی اور ان کے بھتیجے قیس بن علی شامل ہیں۔

تیونس کے دانشور اور سماجی و تعلیمی حلقے عوام کے غیض کے سامنے زین العابدین علی کے محفوظ اقتدار کے خاتمے کو یاسمین انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔ یہ چیک جمہوریہ کے ویلوٹ انقلاب اور یوکرائن کے اورنج انقلاب کا تسلسل خیال کیا گیا ہے۔

NO FLASH Unruhe Tunis Tunesien
سڑکوں کے نگران، تیونس کے ڈنڈا بردار نوجوانتصویر: picture-alliance/dpa

اتوار کو وزیر اعظم محمد الغنوشی نے ایک بار پھر لاء اینڈ آرڈر توڑنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے اپنے سابقہ اعلان کو دہرایا ہے۔ الغنوشی نے بھی پیر کو نئی عبوری حکومت کے قیام کا عندیہ دیا ہے۔ نئی عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے وزیر اعظم نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ معزول صدر کے دور میں کالعدم قرار دی جانے والی دو سیاسی جماعتوں کمیونسٹ پارٹی اور اسلامی النہضہ پارٹی کو عبوری حکومت کی بات چیت میں شامل نہیں کیا گیا۔ ادھر النہضہ کے جلاوطن لیڈر رشید الغنوشی نے لندن سے جاری ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ وہ واپس اپنے ملک جانے کا پلان بنا رہے ہیں۔

دوسری جانب مرکزی اپوزیشن جماعت پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ پیر کو ایک فعال عبوری حکومت کا اعلان کردیا جائے گا۔ اس مناسبت سے PDP کی خاتون سربراہ میة الجریبی کا واضح طور پر کہنا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اس پر اتفاق ہے کہ ملک چھوڑ کر فرار ہونے والے صدر کی حامی سیاسی جماعتوں کو نئی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس تازہ صورت حال کی روشنی میں وزیر اعظم اور قائم مقام صدر فواد المبزع کا مستقبل کیا ہو گا یہ تاحال واضح نہیں ہے۔

Tunesien Massendemonstrationen gegen Präsident Zine El Abidine Ben Ali in Tunis Flash-Galerie
زین العابدین بن علی کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے کے شرکاءتصویر: AP

امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تیونس کے وزیر اعظم اور عبوری صدر کے اس بیان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ تیونس ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ کلنٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں صحیح نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ امریکی وزارت خارجہ نے تیونس میں اپنے سفارت خانے کے عملے کے خاندان کی واپس امریکہ منتقلی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں مقیم امریکی شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صورت حال پر نگاہ رکھیں اور کشیدگی اور تناؤ میں اضافے کی صورت میں وہ فوراً تیونس کو چھوڑ دیں۔

تیونس کے انتہائی مضبوط سابق صدر زین العابدین بن علی کے عوامی مظاہروں کے باعث زوال پر عرب دنیا میں اندرون خانہ ہلچل محسوس کی جا رہی ہے۔ مصری وزیر خارجہ احمد ابو الغیط نے عرب دنیا میں تیونس کی صورت حال کے حوالے سے کسی بھی انقلابی صورت حال کو لغو قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وہ یورپی پریس فوٹوگرافر ابھی زندہ ہے جس کی رحلت کی پہلے خبر جاری کردی گئی تھی۔ بتیس سالہ یہ فوٹو گرافر Lucas Mebrouk Dolega پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا شیل لگنے سے شدید زخمی ہوا تھا۔ اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس کا تعلق EPA ایجنسی سے ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں