تیونس میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ
21 دسمبر 2014اٹھاسی سالہ الباجی قائد السبسی کو منصف مرزوقی کا سامنا ہے جو اسلام پسند النہضہ پارٹی کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔
پولنگ کے تناظر میں ملک میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ہزاروں پولیس اہلکار اور فوجی پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات ہیں۔ ہمسایہ ملک لیبیا کے ساتھ اہم مقامات پر سرحدیں بھی بند کی گئی ہیں۔
ووٹنگ شروع ہونے سے چند ہی گھنٹے قبل ملک کے وسطی علاقے قیروان میں بیلٹ پیپروں کی حفاظت پر مامور فوجیوں پر ایک حملہ ہوا۔ وزارتِ دفاع کے مطابق فوج کی جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور ہلاک ہو گیا جبکہ تین کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولنگ کا آغاز آج اتوار 21 دسمبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے (عالمی وقت کے مطابق صبح سات بجے) ہوا۔ ووٹنگ عالمی وقت کے مطابق شام پانچ بجے تک جاری رہے گی۔ تیونس میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تقریباﹰ پانچ اعشاریہ تین ملین ہے۔ نتائج کا اعلان پیر اور بدھ کے درمیان کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تیونس کے لیے یہ انتخابی مرحلہ انتہائی ہم ہے جس کے نتیجے میں تیونس کو عرب اسپرنگ سے گزرنے والے دیگر بحران زدہ ملکوں کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اسے کئی طرح کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ان انتخابات سے قبل جہادیوں نے ملک کی سیاسی انتظامیہ کے لیے دھمکی پر مبنی ایک ویڈیو جاری کی ہے۔
تیونس نے 1956ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی اور اس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس کے عوام آزادانہ طور پر اپنے صدر کا انتخاب کر رہے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے ووٹنگ تیئس نومبر کو ہوئی تھی جس میں السبسی کو انتالیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ انہتر سالہ مرزوقی کو ان کے مقابلے میں چھ فیصد کم ووٹ ملے تھے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران امیدوار ایک دوسرے کی پگڑی بھی اچھالتے رہے ہیں۔ السبسی نے مرزوقی کو ’انتہاپسند‘ قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ مباحثے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مرزوقی اسلام پسندوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مرزوقی نے الزام لگایا تھا کہ السبسی انقلاب کے معزول کیے جانے والے محافظوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں تیونس میں تیسری مرتبہ ووٹنگ ہو رہی ہے۔ اکتوبر میں ندا تونس پارٹی پارلیمانی انتخابات میں فاتح رہی تھی۔ اس جیت سے السبسی صدر کے عہدے کے لیے فیورٹ قرار دیے جانے لگے تھے۔تاہم آمریت سے بچنے کے لیے آئینی ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات اب کم کیے جا چکے ہیں۔