تیونس کی فاطمہ بن غفریش ’ مس اسلامک ورلڈ‘
22 نومبر 2014انڈونیشیا میں منقعد ہونے والے اسلامی مقابلہ حسن میں فاطمہ بن غفریش نے اپنے سترہ دیگر ممالک سے آئی ہوئی خواتین سے شکست دی۔ ان میں بنگلہ دیش، بھارت، برطانیہ، نائجیریا اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو وغیرہ شامل ہیں۔ فاطمہ بن غفریش نے یوٹیوب پر جاری کی جانے والی ایک تشہیری ویڈیو میں کہا تھا کہ انہیں قرآن کی تلاوت کرنا اور مراقبہ کرنا بہت پسند ہے۔ اس ویڈیو میں انہیں فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے، جس پر تحریر ہے ’’ قبضہ نا منظور‘‘۔
انہوں اس مقابلے کی فاتح ہونے پر سونے کی گھڑی، سونے کا سکہ’دینار‘ اور مکے کا سفر کرنے کے لیے ایک ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس موقع پر فاطمہ بن غفریش نے کہا ’’میں اللہ کی شکر گزار ہوں کہ اس نے فلسطین اور شام کو آزاد کرانے کے میرے مشن میں میری مدد کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ برائے مہربانی فلسطین اور شام کو آزاد کر دیں۔ فائنل مقابلے میں شریک تمام خواتین حجاب پہنے ہوئے تھیں اور ان کا فیصلہ صرف ان کی ظاہری خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے نہیں کیا گیا بلکہ جدید دنیا اور اسلام کے بارے میں ان کے خیالات کو بھی پرکھا گیا اور یہ فیصلہ کرنے سے قبل یہ بھی دیکھا گیا کہ تلاوت قرآن کس انداز میں کرتی ہیں۔
یہ مقابلہ نویں صدی میں تعمیر کیے جانے والے ایک ہندو مندر میں منعقد ہوا۔ پرمبانن نامی یہ مندر انڈونیشی شہر یوگ یکارتا میں واقع ہے۔ یہ مرحلہ مندر میں منعقد کرنے کا مقصد انڈونیشا میں ہندو اور مسلم مذاہب کے مابین مذہبی رواداری اور احترام کے علاوہ بقائے باہمی کو واضح کرتا ہے۔ اس مقابلے میں شریک خواتین کو ایسے لباس زیب تن لازمی تھے، جس سے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ ساتھ ہی جیتنے والے کا انتخاب اس کی ذہانت، پارسائی یا پرہیز گاری اور اسلوب یا اسٹائل کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
انڈونیشیا میں اگرچہ گزشتہ چار برسوں سے ’مس مسلم ورلڈ‘ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم سال 2013 کے مقابلے میں پہلی مرتبہ غیر ملکی خواتین کو بھی شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ گزشتہ برس مس اسلامک ورلڈ کا تاج نائجیریا سے تعلق رکھنے والی اکیس سالہ اوبیبئی عائشہ اجیبولہ کے حصے میں آیا تھا۔ عائشہ لاگوس یونیورسٹی میں فارماسیوٹیکل شعبے کی طالبہ ہیں۔
2014ء کے اسلامی مقابلہ حسن کو انتظامی اعتبار سے کئی مسائل کا سامنا رہا۔ اس دوران کئی شرکاء خواتین انڈونیشیا کی پیچیدہ بیوروکریکسی یا ’افسر شاہی‘ کا شکار ہو گئیں۔ اس کے علاوہ بہت سی لڑکیاں گھر والوں کی جانب سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے انڈونیشیا نہیں پہنچ سکیں۔ مقابلے میں شریک بھارتی لڑکی کو حجاب پہننے اور تنہا سفر کرنے کی وجہ سے ہوائی اڈے پر بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ مقابلے کے پہلے مرحلے میں شریک نہیں ہو سکی۔