1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاسوسی اسکینڈل، بدلتی امریکی پالیسی

گیرو شلیس/ کشور مصطفیٰ30 اکتوبر 2013

امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کالز کی جاسوسی کی خبر سامنے آنے کے بعد یورپی لیڈروں نے جو تنقید اور مذمت کی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اُس کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1A93o
تصویر: picture-alliance/dpa

اس بارے میں امریکا کے دورے پر گئی ہوئی یورپی یونین کی انصاف کے امور کی کمشنرویوین ریڈنگ نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، "جرمن چانسلر کی ٹیلی فون کالز کی جاسوسی کی خبر بہت سے امریکیوں کے لیے جگانے کی گھنٹی یا الارم ثابت ہوئی ہے۔ اب سیاستدانوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے اثرات سیاسی اقدامات کی صورت میں بھی سامنے آئیں"۔ اس بارے میں واشنگٹن سے گیرو شلیس کی ارسال کردہ رپورٹ پیش کر رہی ہیں، کشور مصطفیٰ۔

امریکی خاتون سینیٹر ڈاین فائن اشٹائن امریکی صدر باراک اوباما اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی کٹر حامی رہی ہیں۔ اب اُن کی طرف سے اچانک این ایس اے کی جاسوسی پر سخت تنقید سامنے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ برسلز کی طرف سے دباؤ اور دھمکیوں کا اثر ہوا ہے۔

USA NSA-Spionage Dianna Feinstein
کلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ڈیمو کریٹک سینیٹر ڈاین فائن اشٹائنتصویر: picture-alliance/dpa

اوباما بظاہر " تبدیلیوں" کے لیے تیار ہیں

واشنگٹن انتظامیہ پر بیرونی اور اندرونی دباؤ اتنا زیادہ بڑھا کہ واشنگٹن میں جاسوسی سے متعلق امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی گنجائش دیکھی جانے لگی۔ اخبار نیو یارک ٹائمز اور دیگر ذرائع اس کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ تاہم یہ تبدیلی کس نوعیت کی ہو گی، اس بارے میں خود اوباما نے اپنے ٹیلی وژن انٹرویو میں کچھ نہیں کہا۔ واشنگٹن میں قائم ’سینٹر فار امیریکن پروگریس‘ کے چوٹی کے اہلکار روڈی ڈے لیون کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو وائٹ ہاؤس میں یہ سوچ پیدا ہو گئی ہے کہ اپنے اتحادیوں کی جاسوسی کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں نگرانی اور جاسوسی کے معیار کو نئے تقاضوں کے مطابق اور نجی دائرے کی حفاظت کو بہتر بنانا ضروری ہو گیا ہے۔

Viviane Reding EU Justizkommissarin PK 06.09.2013 in Berlin
یورپی یونین کی انصاف کے امور کی کمشنرویوین ریڈنگتصویر: imago

اتحادیوں کے ساتھ نگرانی کے نئے معیارات وضع کرنا

’سینٹر فار امیریکن پروگریس‘ سے منسلک سکیورٹی امور کے ماہر لاری کورب کا کہنا ہے، "این ایس اے کی نگرانی کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے امریکا کو ہر صورت میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ اشتراک عمل کرنا چاہیے۔ سی آئی اے کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے این ایس اے پر بھی یہ لازم ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی آپریشن سے پہلے امریکی صدر کو اُس کے بارے میں مطلع کرے"۔ سابق امریکی صدر ریگن کی انتظامیہ کے سابق مُشیر لاری کورب کا اس بارے میں مزید کہنا ہے،

"نگرانی کی ٹیکنالوجی نے سیاست کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اصول و ضوابط کی ضرورت ہے، ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہم جاسوسی کی کارروائیوں میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور اتحادیوں کے ساتھ ڈیٹا کے تبادلے کی حدود کیا ہونی چاہییں"۔

Protest in den USA NSA Überwachung
واشنگٹن حکومت پر اندرون ملک بھی دباؤ بہت زیادہ ہےتصویر: Getty Images

این ایس ایے کی کارروائی کس حد تک شفاف ہے؟

امریکی سینیٹر ڈاین فائن اشٹائن نے یورپی پارلیمان کی خارجہ کمیٹی کے صدر اور جرمن سیاستدان المر بروک کے ساتھ 90 منٹ تک جاسوسی کے اسکینڈل کے بارے میں بات چیت کی۔ اس موقع پر این ایس اے کے چیف کِیتھ الیگزینڈر بھی موجود تھے۔ کرسچین ڈیمو کریٹک یونین سی ڈی یو کے سیاستدان بروک نے پُر اعتماد انداز میں رائے عامہ کے سامنے این ایس اے کی کارروائی کو "شفاف جارحیت" قرار دیا۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب اُدھر امریکی خفیہ ایجنسیوں کے رابطہ کار جیمز کلپر نے ایوان نمائندگان کے سامنے اس بارے میں یہ کہا کہ "غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت کی جاسوسی خفیہ ایجنسیوں کی معمول کی کارروائیوں کا حصہ ہے"۔

اس وقت یورپی پارلیمان کے تین وفود واشنگٹن میں موجود ہیں، جنہیں امریکی میڈیا میں غیر معمولی کوریج اور توجہ مل رہی ہے۔