جان کیری اسرائیل و فلسطین کے بعد اردن اور سعودی کے لیے روانہ
5 جنوری 2014جان کیری اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے لیے حمایت حاصل کرنے اردن اور سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ عمان اور ریاض میں سعودی و اردنی حکومتوں کو امن مذاکرات میں پیدا ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ اُن کا تعاون و حمایت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیری پہلے کی طرح اِس مرتبہ بھی اصرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے موجودہ دورے کے دوران مذاکراتی عمل میں مزید مثبت پیش رفت کو دیکھا ہے۔
جمعرات سے شروع ہونے والے دورے کے دوران امریکی وزیرخارجہ نے ویسٹ بینک میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ دو مرتبہ ملاقات کی۔ دوسری ملاقات ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اِس ملاقات کے بعد انہوں نے واپس یروشلم پہنچ کر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ مجموعی صورت حال پر گفتگو کی۔ اِس دورے میں نیتن یاہو کے ساتھ یہ اُن کی تیسری میٹنگ تھی۔ یہ میٹنگ بھی ڈھائی گھنٹے سے زیادہ دورانیے تک جاری رہی۔
ہفتے کے روز کیری نے اپنی ملاقاتوں کا سلسلہ مکمل کرنے کے بعد کہا کہ ابھی مذاکراتی عمل اُس منزل پر نہیں پہنچا جہاں کامیابی کا حتمی یقین ہو البتہ مثبت پیش رفت ضرور سامنے آئی ہے۔ کیری کے مطابق فریقین پوری جانفشانی کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اپریل کے اختتام تک عبوری معاہدے کا فریم ورک تیار کیا جا سکے۔
راملہ میں محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان کیری نے بتایا کہ وہ اردن اور سعودی عرب بھی جا رہے ہیں تاکہ اِن ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ بھی مذاکراتی عمل کی تازہ صورت حال کو زیر بحث لایا جا سکے۔ راملہ میں کیری کا یہ کہنا تھا کہ مشکل ترین رکاوٹوں کو مذاکرات کے دوران حل کرنے کی سرتوڑ کوشش جاری ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کیری نے یہ بھی واضح کیا کہ مشکل رکاوٹیں ابھی تک دور نہیں کی جا سکی ہیں۔
جان کیری کی کوششوں سے تین برسوں سے منجمد مذاکراتی عمل گزشتہ برس جولائی میں بحال ہوا تھا۔ مبصرین کے مطابق وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد کیری کا اسرائیل و فلسطینی علاقے کا دسواں دورہ بھی گھمبیر صورت حال میں مکمل ہو رہا ہےکیونکہ فریقین ایک دوسرے پر کڑی نکتہ چینی سے گریز نہیں کر رہے۔
فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے بینجمن نیتن یاہو کے اُس بیان کی وضاحت امریکی وزیر خارجہ سے طلب کی جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی قیادت مذاکراتی عمل جاری رکھنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ عریقات کا کہنا ہے مذاکراتی عمل کی ناکامی کا احساس اور نقصان کا اندازہ فلسطینیوں سے زیادہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔
گزشتہ برس جولائی میں بحال ہونے والے مذاکراتی عمل کی مفاہمت میں یہ شامل ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی قیادت اپریل سن 2014 کے آخر تک ایک حتمی معاہدے کے لیے عبوری ڈیل طے کرتے ہوئے ایک فریم ورک مکمل کریں گے۔ اِس ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد فریقین مزید ایک سال فریم ورک میں رہتے ہوئے حتمی معاہدے کی تفصیلات کو مکمل کریں گے۔ اِس طرح اگر مذاکراتی عمل پٹری پر رہتا ہے تو اپریل سن 2015 میں دو ریاستی بنیاد پر اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان معاہدہ طے پا سکتا ہے۔