1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپانی باشندوں کے قتل پر نئی بحث کا آغاز

عاطف بلوچ2 فروری 2015

عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی قید سے دو جاپانی یرغمالیوں کو رہا نہ کرا سکنے کے باعث اس بارے میں شبہات جنم لے چکے ہیں کہ آیا ٹوکیو حکومت بین الاقوامی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

https://p.dw.com/p/1EUVT
جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیںتصویر: Reuters/Y. Shino

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے تجزیہ نگاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ سنی شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی طرف سے جاپانی یرغمالیوں کے سر قلم کیے جانا دراصل ٹوکیو حکومت کے لیے ’ایک انتباہ‘ ہے۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو جاپان نے مشرق وسطیٰ کے تنازعات کا حصہ بننے سے اجتناب ہی کیا ہے اور بحرانی حالات میں اس ملک کا ردعمل کبھی بھی زیادہ مؤثر نہیں رہا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ٹوکیو حکومت کے سفارتی ذرائع کمزور ہیں۔

تاکو شوکو یونیورسٹی سے وابستہ سلامتی امور کے ماہر پروفیسر تاکاشی کاواکامی کہتے ہیں، ’’جاپانی حکومت کے پاس سکیورٹی معلومات کی کمی ہے اور یوں کسی بھی بحرانی صورتحال سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ جاپانی یرغمالیوں کی ہلاکت ایک انتباہ ہے اور اس تناظر میں اب ٹوکیو حکومت کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر خفیہ معلومات کے تبادلے کے عمل کو مؤثر بنانا ہو گا۔

Japanischer Journalist Kenji Goto Archiv 2014 Kobane
اسلامک اسٹیٹ نے جاپانی شہری کینجی گوٹو کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہےتصویر: Reuters/www.reportr.co via Reuters TV

اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے ہفتے کے دن جاری کی گئی ایک ویڈیو میں جاپانی یرغمالی کینجی گوٹو کا سر قلم کرتے دکھایا گیا تھا جبکہ ایک ہفتہ قبل انہی شدت پسندوں نے گوٹو کے ساتھی ہارونا یوکاوا کو بھی اس طرح قتل کر دیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ جاپان کا مشرق وسطیٰ میں اہم اتحادی ملک اردن ہے، جو خود ہی اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے زیر حراست اپنے ایک پائلٹ کو آزاد کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس بحران نے ٹوکیو کی اس علاقے میں رابطوں اور سیاسی سوجھ بوجھ میں خامیوں کو نمایاں کر دیا ہے۔ تاہم اتوار کے روز جاپانی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنائے گی اور بیرونی ممالک میں قائم جاپانی تنصیبات کے لیے سکیورٹی انتظامات میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

جاپانی شہر کیوٹو میں واقع دوشیشو یونیورسٹی میں اسلامک اینڈ مڈل ایسٹرن اسٹڈیر کے پروفیسر ماسا نوری نیاتو کے بقول زیادہ بہتر ہوتا اگر ٹوکیو اپنے باشندوں کی رہائی کے لیے ترکی کی مدد حاصل کرتا کیونکہ انقرہ نے اسلامک اسٹیٹ کی قید میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کو بھی ممکن بنایا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اب حکومت اس بات پر غور کرے گی کہ اگر کسی دوسرے ملک میں کسی جاپانی شہری کو خطرہ ہو تو اس کے لیے فوج کو استعمال کیا جائے۔‘‘

جاپان کے ایک اہم اخبار ’یومیوری‘ نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں جاپانی باشندوں کی بہیمانہ ہلاکت کے بعد اب اس ملک کے تمام رہنماؤں کو اس بارے میں ایک متفقہ اور مؤثر حکمت عملی تیار کرنا ہو گی کہ مستقبل میں ایسے کسی نئے واقعے سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔ ’یومیوری‘ کے مطابق سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام جاپانی سیاستدانوں کے مابین اس حوالے سے جامع مذاکرات کی ضرورت ہے۔

دریں اثناء جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت ملکی فوج کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے ریاستی آئین میں ترمیم کرے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جاپانی آئین میں فوج کا کردار صرف دفاع تک ہی محدود ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید