جاپان میں قانونی جوئے خانے بہت متنازعہ کیوں؟
1 اگست 2018دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہونے والے مشرق بعید کے ملک جاپان میں قمار بازی سے متعلقہ ریاستی قوانین میں ترمیم کی باقاعدہ تجاویز پہلی بار دو عشروں سے بھی زائد عرصہ قبل پیش کی گئی تھیں۔ پھر گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو حکومت نے اس قانون کی منظوری دے دی، جس کے تحت ملک میں آئندہ قانونی طور پر کام کرنے والے ایسے جوئے خانے قائم کیے جا سکیں گے، جو صرف کیسینو نہیں ہوں گے بلکہ بڑے بڑے تفریحی اور سیاحتی ریزورٹ کمپلیکسوں کا حصہ ہوں گے۔
ٹوکیو میں ملکی حکومت کے مطابق یہ کیسینو جگہ جگہ قائم جوئے خانے نہیں ہوں گے بلکہ وہ ایسے بڑے بڑے کمپلیکسوں کا حصہ ہوں گے، جو بذات خود ہر طرح کی سہولیات کے حامل اور جیسے پورے کے پورے شہر ہوں گے۔
ایسے مقامات کو حکومت کی طرف سے integrated resorts کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کمپلیکسوں میں ہوٹل بھی ہوں گے، کنوینشن سینٹر بھی، تھیٹر، بڑی بڑی مارکیٹیں، ریستوراں بھی اور جوئے خانوں کے علاوہ وسیع تر تفریحی سہولیات بھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے جوئے خانوں اور کمپلیکسوں کی تعمیر سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے، حکومت کو اضافی ٹیکس بھی حاصل ہوں گے اور یہ جاپان آنے والے سیاحوں کے لیے بھی بہت پرکشش ہوں گے۔
اس کے باوجود جاپانی عوام کا ٹوکیو حکومت کی طرف سے اس شعبے میں نئی قانون سازی پر ردعمل خاصا تنقیدی ہے۔ وزیر اعظم شینزو آبے کی حکومت کو اس موضوع پر اتنی شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اپوزیشن نے تو پارلیمان میں یہ قانون سازی رکوانے کے لیے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی ایک تحریک بھی پیش کر دی تھی، جو ناکام رہی۔
یہ قانون سازی جاپانی پارلیمان کی چھٹیوں سے پہلے کی ششماہی میں آخری روز کی جا سکی۔ اس قانون کے مطابق شروع میں جاپان میں تین ایسے مقامات کا تعین کیا جائے گا، جہاں ایسی اولین کیسینو ریزورٹس قائم کی جائیں گی۔
اندازہ ہے کہ یہ کیسینو کمپلیکس 2020ء کی دہائی کے وسط تک کام کرنا شروع کر دیں گے۔ اگر یہ ابتدائی منصوبہ کامیاب رہا، تو اسی قانون کے تحت جاپان میں آئندہ ایسی مزید کیسینو ریزورٹس بھی قائم کی جا سکیں گی۔
ایسے نئے کیسینو کمپلیکسوں کے اولین میزبان شہر اوساکا اور ناگاساکی ہو سکتے ہیں جبکہ ان میں ہوکائیڈو اور واکایاما کے انتظامی علاقوں کی طرف سے بھی دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔
جاپان کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہاں عوامی سطح پر قانونی جوئے کی پہلے ہی سے اجازت ہے اور وہاں گھڑ دوڑ، سائیکل ریس اور اسپیڈ بوٹ ریسنگ کے شعبوں میں پہلے ہی سے سٹے بازی کی روایت موجود ہے۔ اب لیکن باقاعدہ اور بڑے بڑے قانونی جوئے خانوں کا قیام ملک میں اپنی نوعیت کی اولین پیش رفت ہو گا۔
دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے نئی قانون سازی کرتے ہوئے عام شہریوں کو جوئے کی لت سے بچانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ قطعی ناکافی ہیں۔ اسی لیے تشویش کے شکار شہریوں کو خدشہ ہے کہ نئے کیسینو کمپلیکس تعمیر ہونے سے نہ صرف عوام میں بیماری کی حد تک جوئے کی عادت بڑھ جائے گی بلکہ اس طرح زیر زمین سرگرم جرائم پیشہ گروہوں کو بھی اپنے ہاتھ مضبوط بنانے کا موقع مل جائے گا۔
ایک تازہ سروے کے مطابق جاپانی عوام میں سے قریب دو تہائی نے کہا ہے کہ وہ ایسے جوئے خانوں کے قیام کے خلاف ہیں جبکہ قریب 27 فیصد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسینو قائم کیے جانا چاہییں۔
اوساکا کی ہنّان یونیورسٹی کے پروفیسر اور اوساکا میں ایسے اولین جوئے خانے کی ممکنہ تعمیر کے مخالف شہریوں کے نیٹ ورک کے سربراہ ساکوراڈا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اپنی موجودہ شکل میں یہ قانون بہت ہی برا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد حکومت کو ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی تو بہت زیادہ ہو جائے گی، اور ایسی ریزورٹس چلانے والے ادارے بھی بہت منافع کمائیں گے، لیکن جاپانی معاشرے کے وہ افراد، جو مالی طور پر جوئے کے سب سے کم متحمل ہو سکتے ہیں، وہی وہ شہری ہوں گے، جن کی جیبیں سب سے پہلے خالی ہو جائیں گی۔‘‘
جولیان رائیل، ٹوکیو / م م / ع ت