جرمنی، افغان مہاجرین کا وطن واپسی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
27 نومبر 2016جرمن وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فالیا کے صدرمقام ڈسلڈورف میں تقریباً پانچ سو افغان مہاجرین نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ یہ احتجاج کل ہفتہ، چھبیس نومبر کو کیا گیا۔ اپنے اس احتجاج میں وہ بڑے بڑے بینر اٹھائے ہوئے تھے، جن پر’ جنگ زدہ علاقے کی جانب مہاجرین کی واپسی جائز نہیں‘ اور ’ افغانستان واپسی قبول نہیں‘ لکھا ہوا تھا۔
اس احتجاج کا انتظام افغان ریفیوجیز کی سلامتی کی تنظیم ’افغانستان کی پکار‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ یہ تنظیم جرمنی اور یورپ میں افغان مہاجرین کی سلامتی و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔ اس احتجاج میں مظاہرین کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ ابھی تک افغانستان میں زندگی محفوظ نہیں ہے اور اسی باعث کئی خاندان اپنے کم سن بچوں کے ہمراہ جانیں بچانے کے لیے یورپ تک کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی افراد کا کہنا تھا کہ وہ اگر واپس افغانستان چلے جاتے ہیں تو اُن کے زندہ رہنے کا امکان کم ہے۔
احتجاج میں ایسے خیالات کا بھی اظہار کیا گیا کہ جن افغان باشندوں کو جنگ زدہ علاقوں میں روانہ کرنے کی پلاننگ کی گئی ہے، یہ دراصل موت کی سزا کے مساوی ہے۔ احتجاجی ریلی کے موقع پر جرمنی کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت ڈی لنکے کے صوبائی ترجمان کرسٹیان لےیے کا کہنا تھا کہ تحفظ کی تلاش میں جرمنی پہنچنے والے افغان مہاجرین کو اُن کی سلامتی کے تناظر میں رہائش کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اس احتجاج کی ایک وجہ رواں برس اکتوبر میں افغان حکومت اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والی وہ ڈیل ہے، جس کے تحت افغانستان کے تقریباً اسی ہزار سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو اگلے چار برسوں میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ ان میں چالیس ہزار جرمنی سے واپس افغانستان روانہ کیے جائیں گے۔ ان افغانیوں کی واپسی اور معاشی ترقی کے لیے تقریباً تیرہ ارب یورو کی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔
اس مناسبت سے گزشتہ ماہ جرمن پارلیمنٹ میں بھی بتایا گیا تھا کہ برلن حکومت بارہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو جلد وطن روانہ کر دے گی۔ ان افغان باشندوں کی سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ڈی لنکے کے ایک سوال کے جواب میں افغان پناہ گزینوں کی درخواستوں کے مسترد ہونے کی تفصیل فراہم کی گئی تھی۔