جرمنی: ریپ متاثرین کی مدد کے لیے شواہد محفوظ کرنے کا منصوبہ
25 نومبر 2022خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے قبل اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، ''خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی خلاف ورزی ہے۔‘‘ اس رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ تین میں سے ایک عورت ''اپنی زندگی کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرتی ہے۔‘‘ اس کے باوجود ان میں سے صرف 40 فیصد متاثرین ہی مدد کی خواہاں ہیں۔
چار خواتین کا ریپ: برازیلین کوچ کو ایک سو نو سال قید کی سزا
جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بہت کم لوگ ہی اس کی اطلاع دیتے ہیں۔ برانڈنبرگ کے اسٹیٹ فرانزک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ نٹ البرچٹ کے مطابق، ''زیادہ تر کیسز متاثرہ فرد کے اردگرد کے ماحول میں وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ مجرم کسی کا شوہر، ساتھی، یا چچا ہو سکتا ہے۔ متاثرین گھر میں امن قائم رکھنا چاہتے ہیں اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ جنسی تشدد کی ایک ہزار ایک وجوہات ہیں، جن کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے۔‘‘
جرمنی سمیت دنیا کے کچھ حصوں میں، جو خواتین جنسی زیادتی کی پولیس رپورٹ نہیں کرنا چاہتی یا نہیں کر سکتیں، ان کے لیے ایک اور سہارا ہے۔ اس کے ذریعے ایک خفیہ ترتیب میں حملے کے ثبوتوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ البرچٹ برانڈنبرگ میں ایک ایسا ہی ماڈل پراجیکٹ چلاتے ہے، جو جنسی تشدد کے متاثرین کو فوری طبی امداد فراہم کرتا ہے اور شواہد کا خفیہ ذخیرہ کرتا ہے۔ اگر جنسی حملے کا شکار ہونے والا فرد حملے کے بعد کی تاریخ میں قانونی کارروائی کرنے کا انتخاب کرتا ہے تو یہ محفوظ شدہ ثبوت عدالت میں قابل قبول ہوں گے۔
شواہد کیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں؟
اس عمل میں ایک مخصوص طبی سہولت گاہ پر معائنہ اور کسی بھی زخم کی ریکارڈنگ شامل ہے۔ جنسی حملے کا شکار عورت کو عام طور پر ایک خاتون ڈاکٹر کی مدد سے ایک فارم بھرنے کے لیے کہا جائے گا۔ کسی بھی چوٹ کی تصاویر کے ساتھ ساتھ متاثرہ خاتون کے زیر جامے اور دیگر ملبوسات کو پھر فرانزک ماہرین کو بھیجا جائے گا اور ثبوت کے طور پر محفوظ کیا جائے گا۔
بھارت میں دو نابالغ دلت بہنوں کا ریپ اور قتل، ملزمان گرفتار
البرٹ چٹ کے مطابق مجرم کے ڈی این اے کا تجزیہ کرنے کے لیے نمونے بھی لیے جائیں گے، ''اگر عورت کی وجائنا، مقعد یا منہ میں انزال ہوا تو منی مل جائے گی۔ اس کے بعد اسے ڈی این اے کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس طرح کے نمونے صرف اس وقت لیے جائیں گے جب کسی خاتون نے حملہ آور کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہوں اور صرف اس صورت میں جب بالکل ضروری ہو۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے البرٹ چٹ نے کہا،''زبانی ہمبستری کے معاملے میں متاثرہ خاتوں کے جنسی اعضاء سے کوئی نمونہ نہیں لیا جائے گا اور اگر اورل سیکس کے ذریعے متاثرہ خاتون کے پیٹ پر انزال ہوا ہے تو صرف وہاں سے نمونہ لیا جائے گا۔‘‘
اگر انزال نہیں ہوا لیکن مجرم کا عضو تناسل متاثرہ خاتون کے جسم میں داخل ہو تو ماہرین پھر بھی عضو تناسل کی جلد سے ڈی این اے کے نشانات تلاش کرنے کی امید میں نمونہ لیں گے۔ لیکن البرچٹ نے کہا کہ یہ طریقہ ڈی این اے کے تجزیے کے لیے منی کے نشانات کے استعمال سے کم قابل اعتماد ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مجرم کو ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون نے نوچا تھا تو اس کے ناخنوں کے نیچے اس مجرم کے ڈی این اے کے نشانات بھی مل سکتے ہیں۔
فوری معائنہ ضروری
ماہرین کے مطابق یہ ضروری ہے کہ شواہد کو جتنی تیزی سے ممکن ہو اکٹھا کیا جائے کیونکہ بیرونی ڈی این اے تیزی سے بکھر جاتا ہے۔ برلن میں مقیم ایک ماہر گائناکالوجسٹ لیلی کے مطابق،'' اگرجنسی تشدد جس میں دخول شامل ہے جو جسم سے رطوبتوں کے اخراج کا باعث بنتا ہے تو ان کا ایک معائنے میں پتا لگایا جا سکتا ہے۔‘‘ لیکن انہوں نے کہا کہ معائنہ تیزی سے ہونا چاہیے،''کچھ دنوں یا ہفتوں کے بعد بہت دیر ہو جاتی ہے کیونکہ وجائنا جھلی تیزی سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘‘
گینگ ریپ مجرمان کی رہائی، امریکی حکومتی کمیشن کی مذمت
جرمن ریاست برینڈنبرگ فی الحال 10 سال تک خفیہ طور پر جمع کیے گئے فرانزک شواہد کو محفوظ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر انڈرویئر کو اس طرح محفوظ کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی اصلی حالت میں رہتا ہے۔ نمونوں سے نکالے گئے ڈی این اے کو اس طرح محفوظ بنایا جاتا ہے کہ اسے بعد کی تاریخ میں عدالت میں قبول کیا جائے۔
خواتین کی حدود کا احترام کرنا
گائنا کالوجسٹ لیلی کے مطابق امراض نسواں کے معائنے نازک معاملات ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر جب کسی متاثرہ شخص کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مریضوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی اور احترام کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ انہوں نے کہا،''یہ ایک مریض کو کرسی پر بٹھانے اور یہ کہنے کے بارے میں نہیں ہے کہ 'ہم یہ کرنے جا رہے ہیں‘ لیکن انہیں تحفظ کا احساس دینے، ان کی داد رستی کرنے اور ان کی انفرادی جسمانی حدود کو قبول کرنے کے بارے میں ہے۔‘‘
جسمانی بحالی اور نفسیاتی مدد
لیلی نے یہ تجویز بھی دی کہ عصمت دری کا شکار خواتین چار سے چھ ہفتوں بعد حمل یا جنسی عمل سے منتقل ہونے والی بیماریوں کے ٹیسٹ کے لیے ماہرگائناکالوجسٹ کے پاس جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنسی حملے کے فوراً بعد عورت کا معائنہ صرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ دوسرا نفسیاتی مدد فراہم کرنا ہے تاکہ عورت اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف کارروائی شروع کر سکے۔
ش ر ⁄ ع ت (کارلا بلائیکر)