جرمنی سے مہاجرین کی دوسرے یورپی ملکوں میں واپسی درست، میرکل
13 نومبر 2015جرمنی کے وزیر داخلہ نے تین ہفتے قبل یہ فیصلہ کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اس فیصلے کے بارے میں نہ تو انگیلا میرکل کو اطلاع دی تھی اور نہ ہی ان کے چیف آف اسٹاف پیٹر آلٹمائر کو مطلع کیا تھا۔ آلٹمائر مہاجرین سے متعلق امور کے وفاقی مشیر بھی ہیں اور تارکین وطن سے متعلق حکومتی اقدامات کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے ’ڈبلن ضابطہ‘ نامی اس قانون کا اطلاق گزشتہ ماہ اکیس اکتوبر سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ڈبلن ضابطے کے مطابق تارکین وطن یورپی یونین کے اسی ملک میں پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں، جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے ہوں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے رواں برس اگست میں اعلان کیا تھا کہ شام سے آنے والے تارکین وطن پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔
انگیلا میرکل کے اس فیصلے کے بعد جرمنی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا تھا اور میرکل کو اس حوالے سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم وزیر داخلہ کی جانب سے میرکل کو مطلع کیے بغیر اس قانون کے ازسرنو اطلاق کے فیصلے سے حکمران اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
جرمنی کے وفاقی دارالحکومت برلن میں آج آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرن بل سے ملاقات کے بعد منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران انگیلا میرکل نے وزیرداخلہ کے اس فیصلے کا دفاع کیا۔ میرکل کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بہت کم تارکین وطن ایسے ہی جنہوں نے یورپی یونین کے اس ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک ڈبلن قوانین کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
تاہم میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی کے اس فیصلے سے متاثر ہونے والے تارکین وطن کی تعداد بہت کم ہے۔ انہوں نے ڈے میزیئر کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’ہم یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین تارکین وطن کی منصفانہ تقسیم چاہتے ہیں اور اس تناظر میں یہ فیصلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جانب سے شامی مہاجرین پر ڈبلن قوانین نافذ نہ کرنے کا فیصلہ بھی غلط نہیں تھا۔ میرکل کے مطابق اس وقت اگر یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو تارکین وطن کے راستوں پر واقع یورپی یونین کے رکن ممالک کو اپنے حصے سے زیادہ مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ جرمنی یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ ممالک اپنے حصے سے کم مہاجرین کو پناہ دیں۔