1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں انٹرنيٹ لنکس کے استعمال کا نيا قانون زير غور

29 نومبر 2012

جرمنی ميں ايک نيا قانون زير غور ہے جس کے تحت يہ زيادہ واضح طور پر طے کر ديا جائے گا کہ کس کو کن شرائط کے تحت کن انٹرنيٹ ويب سائٹس تک رسائی ملنا چاہيے۔

https://p.dw.com/p/16sfp
تصویر: Getty Images

انٹرنيٹ پر ويب سائٹس تلاش کرنے والے انجن بہت سے اخبارات اور جريدوں کے حصے بھی شائع کرتے ہيں۔ اب ان اخبارات اور جرائد کے طابعين انٹرنيٹ اداروں سے مطالبہ کر رہے ہيں کہ وہ اُنہيں لائسنس فيس ادا کريں۔ ليکن يہ ادارے جن ميں گُوگل پيش پيش ہے، کسی قسم کی فيس ادا نہيں کرنا چاہتے۔ اب جرمنی ميں ايک نيا قانون بنانے کی منصوبہ بندی کی جاری ہے، جس کے تحت پريس کے طابعين کے قانونی حقوق کی وضاحت ہو جائے گی۔

آج جرمنی کی وفاقی پارليمنٹ ميں اس قانونی مسودے پر پہلی بحث ہو رہی ہے جس کے بعد اسے متعلقہ کميٹيوں کو بھيج ديا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس قانون کے ذريعے اس کی ضمانت ہو جائے گی کہ پريس مطبوعات شائع کرنے والوں کو انٹرنيٹ پر دوسری پيشکشيں کرنے والوں کے مقابلے ميں نقصان نہيں اٹھانا پڑے گا۔ پريس طابعين يہ چاہتے ہيں کہ سرچ انجن جب پريس مطبوعات کے ويب سائٹس تک لنکس قائم کريں تو اس سے اُن کو جو آمدنی ہو اس ميں سے کچھ حصہ ان طابعين کو بھی ادا کيا جائے۔

گُوگل اس قانون کے خلاف ايک زبردست تحريک چلا رہا ہے۔ وہ جو اپيليں انٹرنيٹ پر پھيلا رہا ہے وہ اس قسم کی ہيں: ’’اگر آپ آئندہ بھی اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہيں تو پھر اپنے نيٹ ورک کا دفاع کريں۔‘‘ گوگل کی جرمن شاخ کے سربراہ اشٹيفن ٹويرازر نے کہا: ’’نئے قانون کا مطلب يہ ہے کہ شہريوں کو کم معلومات مليں گی اور تجارتی اداروں کو زيادہ اخراجات ادا کرنے ہوں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے انٹرنيٹ کے بنيادی استعمال ميں خلل پڑے گا۔

امريکی انٹرنيٹ فرم ياہو کا صدر دفتر، سانتا کلارا
امريکی انٹرنيٹ فرم ياہو کا صدر دفتر، سانتا کلاراتصویر: dapd

انٹرنيٹ سرچ انجن گوگل کو اس قانون کی مخالفت ميں ماہرين کی مدد بھی مل رہی ہے۔ مشہور ماکس پلانک انسٹيٹيوٹ کے ماہرين کے مطابق نئے قانون کے نا قابل اندازہ منفی اثرات ہوں گے۔ يورپی اور جرمن قانون دان اس نئے قانون کے بارے ميں متفکر ہيں۔ وہ کاپی رائٹ کے موجودہ قانون کو کافی سمجھتے ہيں کيونکہ طابعين اب بھی يہ کہہ سکتے ہيں کہ وہ اپنے انٹرنيٹ ويب سائٹ لنکس تک رسائی نہيں ہونے دينا چاہتے۔

ڈوسلڈورف کی ہائنرش ہائنے يونيورسٹی کے اقتصاديات کے پروفيسر رالف ڈيوينٹر نے کہا: ’’آن لائن ميڈيا يہ چاہتے ہيں کہ وہ تلاش کے عمل کے دوران سب سے اوپر ہوں۔ وہ چاہتے ہيں کہ اُن کو بہت آسانی سے ڈھونڈنا ممکن ہو۔ وہ خود اسے ممکن بنا سکتے ہيں کہ ان کو تلاش نہ کيا جا سکے ليکن وہ ايسا نہيں کر تے کيونکہ اس سے اُن کو نفع ہوتا ہے۔‘‘

بعض حلقوں کا خيال ہے کہ نئے قانون کے نتيجے ميں انٹرنيٹ پر معلومات يا تو تلاش ہی نہيں کی جا سکيں گی اور يا پھر يہ بہت مشکل سے ممکن ہو گا۔ اس کے برخلاف بعض دوسروں کا يہ کہنا ہے کہ اس سے انٹرنيٹ کی آزادی متاثر نہيں ہوگی بلکہ مفادات کے موجودہ نظام ميں توازن پيدا ہوگا ليکن انٹرنيٹ استعمال کرنے والے عام صارف کو نئے قانون کے بعد کوئی بھی فرق محسوس نہيں ہوگا۔

R. Breuer,sas/as