جرمنی میں زمانہ قبل از تاریخ کے ’بچوں کے فیڈرز‘ کی دریافت
26 ستمبر 2019زمین پر انسانی موجودگی کی معلوم تاریخ کے دور سے بھی پہلےکے زمانے کے یہ انتہائی قدیم برتن خاص طرح کی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان تاریخی باقیات کی مدد سے اس پہلو پر روشنی ڈالی جا سکے گی کہ زمانہ قبل از تاریخ کے انسان اپنے بچوں کو پانی یا دودھ کس طرح پلایا کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت دراصل ایک انتہائی قیمتی خزانہ ہے، جو یہ واضح کر سکے گا کہ 'پری ہِسٹورِک‘ (prehistoric) انسان اپنے شیر خوار بچوں کی پرورش کیسے کرتے تھے۔ ان سیرامک برتنوں کے بارے میں آرکیالوجسٹ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ برتن تقریباﹰ یقینی طور پر وہ 'بےبی بوتلیں‘ تھے، جن کے ذریعے ہزاروں برس پہلے کے انسان اپنے چھوٹے بچوں کو دودھ پلایا کرتے تھے۔
'دریافت شیر خوار بچوں کے قدیمی قبرستان سے‘
اس بارے میں ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ قدیمی باقیات جنوبی جرمن صوبے باویریا میں ایک ایسی جگہ سے ملیں، جو تاریخی حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ یہ برتن ایک ایسی جگہ سے ملے، جو تانبے اور لوہے کے زمانوں میں شیر خوار بچوں کی تدفین کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اسے ہزاروں سال پہلے کا 'شیرخوار بچوں کا قبرستان‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
اس بارے میں سائنسی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ تاریخی برتن اس امر کا ثبوت بھی ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی اپنے بچوں کی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لیے انہیں دودھ پلاتا تھا، جو گھروں میں پالے جانے والے جانوروں سے حاصل کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل ماہرین آثار قدیمہ کے پاس اس بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں والدین اپنے بچوں کو کھانے یا پینے کے لیے کس طرح کی خوراک دیتے تھے۔ آرکیالوجسٹ یہ پتہ چلانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان قدیمی برتنوں میں سے انہوں نے جن تین کا تفصیلی سائنسی معائنہ کیا، ان میں سے ایک تانبے کے دور میں یعنی 2800 سال سے لے کر 3200 سال پہلے بنایا گیا تھا۔
اولاد سے محبت تو ہمیشہ ہی سے تھی
برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی کی ماہر آثار قدیمہ اور مالیکیولر بیالوجسٹ جُولی ڈَن کہتی ہیں، ''میری رائے میں یہ وہ پہلا براہ راست ثبوت ہے کہ قبل از تاریخ کے عہد میں انسانی بچے کس طرح کی خوراک کھاتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا، ''یہ انتہائی نادر اور قدیمی باقیات یہ بھی دکھاتی ہیں کہ قبل از تاریخ کے دور کے انسان اپنے بچوں سے کتنی محبت اور کس طرح ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘‘ ان برتنوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مختلف جانوروں کی شکلوں کے ہیں۔
دودھ پینے کے لیے ان برتنوں کے منہ ایسے جانوروں کی کمروں پر بنے ہوتے تھے۔ یہ برتن ایسے بنائے گئے تھے کہ ایسے 'جانور نما برتنوں‘ کو ان کے سینگوں، دم، منہ یا پاؤں سے پکڑنے میں چھوٹے بچوں کو بھی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
آسٹریا کی اکیڈمی آف سائنسز سے منسلک ماہر آثار قدیمہ کاتارینا ریبے زالسبری کہتی ہیں، ''مجھے یہ برتن دیکھنے میں بڑے ہی پیارے اور معصومیت کے مظہر نظر آتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس دور میں یہ برتن دوہرے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہوں۔ پانی یا دودھ پینے کے لیے آج کل کے بچوں کے 'فیڈروں‘ جیسے اور شاید کھیلنے کے لیے تقریباﹰ ان کھلونوں کی طرح بھی، جیسے آج کل کے بچے بھی چھوٹی عمر میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘
زمانہ قبل از تاریخ کا یورپ
آسٹرین آرکیالوجسٹ ریبے زالسبری کہتی ہیں کہ تانبے اور لوہے کے ادوار میں یورپ میں زندگی بہت ہی مشکل تھی۔ تب بہت سے لوگ قحط اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے تھے اور روزمرہ زندگی میں حفظان صحت کی صورت حال بہت بری ہوتی تھی۔ اب تک دستیاب تاریخی اور طبی معلومات کے مطابق اس دور میں نومولود بچوں میں سے تقریباﹰ ایک تہائی اپنی زندگی کا پہلا سال پورا کرنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ مزید یہ کہ اس دور میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے صرف تقریباﹰ نصف ہی بڑے ہو کر بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے تھے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)