جرمنی میں پریس کے خلاف جرائم میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ
13 مارچ 2023جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی ’لیفٹ پارٹی‘ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے نے بتایا کہ اس کی ملکی سطح کی رپورٹنگ سروس نے سن 2022 میں صحافیوں کے خلاف مجموعی طور پر 320 مجرمانہ کارروائیوں کا اندراج کیا۔ سن 2016 میں پہلی بار اس طرح کے جرائم کے اعداد و شمار مرتب کیے گئے تھے، جس کے بعد سے یہ تعداد اب تک کی سب سے زیادہ سالانہ بتائی جا رہی ہے۔
گزشتہ برس جرمنی میں 83 صحافیوں پر حملے ہوئے
جرمن اخبار ’دی ویلٹ‘ نے اس رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ میڈیا کارکنوں پر 320 سیاسی حملوں میں سے 46 پرتشدد نوعیت کے تھے، 41 واقعات میں دھمکیاں دی گئیں، 31 واقعات میں املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور 27 دیگر واقعات صحافیوں کے خلاف اشتعال انگیزی سے متعلق تھے۔
بھارت میں دو برس کے دوران صحافیوں پر 256 حملے، رپورٹ
وفاقی جرمن صوبہ سیکسنی ایسے 69 جرائم کے ساتھ سرفہرست رہا۔ اس کے بعد برلن میں ایسے 66 اور جنوبی صوبے باویریا میں ایسے 40 واقعات پیش آئے۔ جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ایسے تقریباً 20 واقعات درج کیے گئے۔
احتجاج کے دوران صحافیوں پر حملے، یونیسکو کو تشویش
دی ویلٹ اور دیگر جرمن میڈیا اداروں میں شائع ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران جرمنی میں میڈیا کو نشانہ بنانے والے اور حکام کو رپورٹ کیے گئے جرائم میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ سن 2018 میں ایسے 93 حملوں کے بعد سے اس تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔
خواتین صحافیوں پر حملے، پارلیمانی کمیٹی نے بات تو سنی
صحافیوں کے خلاف تشدد کا تعلق کورونا کی وبا سے بھی؟
بائیں بازو کی جماعت کی انکوائری نے مجرمانہ حملوں کی تعداد کے ایسے اعداد و شمار بھی طلب کیے تھے، جو براہ راست کورونا وائرس کی وبا کے دوران مظاہروں سے متعلق تھے۔
یہ تعداد 64 بتائی گئی ہے، جن میں 15 پرتشدد واقعات بھی شامل تھے۔ اس فہرست میں بھی ریاست سیکسنی دیگر جرمن ریاستوں کے مقابلے میں سب سے آگے رہی، جہاں کُل 64 میں سے نصف سے زیادہ یعنی 34 ایسے واقعات پیش آئے۔
بائیں بازو کی جماعت ’لیفٹ پارٹی‘ کی میڈیا ترجمان پیٹرا زِٹّے کا کہنا تھا، ’’سن 2022 میں میڈیا کے پیشہ ور افراد کے خلاف ریکارڈ شدہ جرائم کی تعداد افسوس ناک حد تک نئی بلندی پر پہنچ گئی۔ اس میں گزشتہ برس کی طرح، پرتشدد جرائم کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے، جن کا ارتکاب کورونا وائرس کی وبا کے باعث عائد پابندیوں خلاف مظاہروں کے سلسلے میں کیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اگرچہ اس طرح کے احتجاجی مظاہرے وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں، تاہم بعض گروپوں کی جانب سے پریس مخالف رویہ اور ان کی انتہا پسندی مسلسل مسئلہ بنے رہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے اس حوالے سے ایک مربوط ریاستی اور وفاقی حکمت عملی پر زور دیا تاکہ آزادی صحافت اور ملکی ذرائع ابلاغ کے لیے کام کرنے والوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور اس حوالے سے مستقبل میں صورت حال کا مسلسل جائزہ بھی لیا جا سکے۔
ص ز / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)