جرمنی میں پہلا ہم جنس پسند امام
24 مارچ 2020جمعے کی نماز سے قبل جوتے باہر اتار کر مسجد کے ہال میں رنگین قالین پر آ کر بیٹھنے والے نمازی اور سامنے امام عامرعزیز جنہیں نماز کی امامت کرانا ہے۔ اس مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک طرف ایک چادر کی مدد سے خواتین کے لیے مخصوص حصہ بنایا گیا ہے، مگر وہاں خاتون صرف ایک ہیں، جو مسجد میں ایک طرف ستون کی اوٹ میں جا بیٹھی ہیں۔ قریب ہی ایک ڈبہ ہے، جہاں اسکارف رکھے ہیں، تاکہ خواتین نماز کی ادائیگی کے لیے یہ اسکارف اوڑھ لیں۔
کرسٹیان اوہان ہیرمان کہتے ہیں، '’میری مسجد میں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کیوں کہ انسانوں میں جنس کی بنیاد پر تفریق کرنا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘
49 سالہ ہیرمان نے دو برس قبل اسلام قبول کیا تھا اور وہ اب خود کو جرمنی کا پہلا اعلانیہ ہم جنس پسند امام کہلواتے ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں ایک غیرسرکاری تنظیم "کلمہ" کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تنظیم کے تحت ان مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے، جو کسی بھی طرز کے سماجی امتیاز کا سامنا کر رہے ہوں اور یہ تنظیم خصوصاً ہم جنس پرستوں اور مخنث افراد کے حقوق کے حوالے سے آواز اٹھاتی ہے کیوں کہ عام مذہبی تنظیموں کی جانب سے انہیں کوئی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم معاشرے میں خواتین کے فعال کردار کی حامی ہے۔ برلن میں قائم'کلمہ‘ تنظیم کا نعرہ ہے کہ باجماعت نماز میں تمام افراد کو بلاتفریقِ جنس شامل ہونا چاہیے اور انسانوں کے درمیان نماز کے موقع پر کسی قسم کی تفریق قائم نہیں کرنا چاہیے۔
مذہب اور ہم جنسی پسندی ایک ساتھ کیسے؟
ہم جنس پسندی اور اسلام؟ روایتی گھرانوں میں پلے بڑھے زیادہ تر مسلمانوں کے لیے شاید یہ سوچنا بھی ناممکن ہو۔ تمام عمر ان افراد کو بتایا جاتا ہے کہ ہم جنس پسندی "حرام" ہے۔ یہ کہنا ہے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کا جو اب برلن میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس نوجوان کی ملاقات ہیرمان سے ہوئی تھی اور وہیں دونوں کے درمیان گفت گو نے انہیں ایک دوسرے کے عقائد اور جنسی رغبت کے حوالے عام نکتہ ہائے نظر اور ممکنہ متبادل مذہبی تشریح سے آگاہ کیا۔
تاہم بہت سے ہم جنس پسند مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کو اسلام یا ہم جنس پسندی میں سے ایک شناخت کا انتخاب کرنا ہے۔ بعض خود کو الگ تھلگ سمجھتے ہیں اور مذہب ہی کو ترک کر دیتے ہیں جب کہ بعض اسلام کی انتہائی سخت تشریحات والے عقائد کی جانب مڑ جاتے ہیں، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ ہم جنس رغبت خدا کے نزدیک قابل نفرت ہے۔ ہیرمان اسے برین واشنگ قرار دیتے ہیں۔
ہیرمان اس موضوع پر کہتے ہیں، "آدمیوں نے یہ خیال روح تک جذب کر رکھا ہے کہ وہ جیسے ہیں، انہیں ویسا نہیں بلکہ کچھ اور ہونا چاہیے۔"
ہیرمان کے مطابق قرآن تاہم ہم جنس پرستی کو حرام قرار نہیں دیتا۔
بعض مسلمانوں کی اس موضوع پر ایک بالکل مختلف رائے ہے۔ وہ قرآن میں سورہ ء لوط میں بیان کردہ کہانی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جو ایک علاقے سے متعلق ہے، جہاں ہم جنس پرستی ہوا کرتی تھی، جس کا نتیجہ "خدا کے عذاب" کی صورت میں نکلا۔ تاہم بہت سے مسلم دانش ور اس باب کی مختلف تشریح کرتے ہیں۔ لیکن جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل بھی اسی موقف کی حامل ہے کہ ہم جنس پرستی اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام ہم جنس پرستی پر "واضح احکامات" نہیں دیتا
بہت سی اسلامی تشریحات ہم جنس پرستی کو گناہ قرار نہیں دیتیں، تاہم جرمنی میں مسلمانوں کی کونسل کے مطابق "فعالیت اور کھلے عام" ہم جنس پرستی گناہ ہے۔ کونسل کے مطابق، "گو کہ اس کے کوئی دنیاوی نتائج نہیں، مگر یہ خدا اور بندے کے درمیان حائل ہو سکتی ہے۔"
ہیرمان کا تاہم مختلف موقف ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ہم جنس پرستی کی واضح الفاظ میں ممانعت نہیں ہے۔ ہیرمان کو امامت کی تربیت فرانسیسی امام لوڈوی محمد زاہد نے دی ہے، جو خود بھی 'گے‘ ہیں۔ انہیں بھی ان کی جنسی رغبت کے اعتبار سے عام مسلمانوں کی جانب سے تنقیدی جملے سننا پڑتے ہیں۔
ہیرمان کا کہنا ہے کہ قدامت پسند مسلمانوں کے ساتھ گفت گو ضرور ہو سکتی ہے اور انہیں دلیل اور حوالوں سے سمجھایا جا سکتا ہے، مگر یہ نکتہ ہائے نظر مقبول نہیں ہے۔ امام ہیرمان کے فیس بک پیج پر چھ سو پچاس لائیکس اور سات سو بیس فالورز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ ان کی بات سنتے ہیں تاہم اپنے آپ کو اس نکتہ ہائے نظر سے عوامی سطح پر جوڑنے میں خوف محسوس کرتے ہیں کیوں کہ انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ معلوم کرنا نہایت مشکل ہے کہ ہیرمان کا پیغام کتنے افراد تک پہنچ رہا ہے۔
ہیرمان امام کی سند تو لے چکے ہیں، تاہم ابھی ان کے پاس مسجد نہیں ہے جب کہ جرمنی میں مسلم ہم جنس پرست برادری ادھر ادھر بکھری ہوئی ہے۔ ہیرمان ہر ہفتے جمعے کی نماز مختلف مساجد میں ادا کرتے ہیں اور وہاں اماموں اور مقامی مسلم برادری سے بات چیت کرتے ہیں۔
مسلم برادری میں تبدیلی کیسےآئے؟
ہیرمان "گے امام" کے بہ طور اپنی پہچان کرواتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح انہیں لوگوں سے گفت گو کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور اسی سے مسلم برداری میں اس معاملے پر خیالات کی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔
اس وقت امام ہیرمان خود کو جرمنی کی ہم جنس پسند برداری کا ایک نمائندہ سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے نیٹ ورکنگ کے لیے بھرپور وقت استعمال کرتے ہیں۔
اسلامک اسٹڈیز کے اسکالر اندریاس اسماعیل مہر ہیرمان کے کام میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی ہم جنس پرستی اور اسلام پر متعدد تفصیلی مضامین لکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیرمان کی نیت صاف ہے اور وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ تاہم مہر ہیرمان کو "امام" تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے، "امام وہ ہوتا ہے جو نماز کی امامت کرائے۔ اس کی یہ مخصوص تعریف تو نہیں، مگر میری رائے یہی ہو گی کہ ہیرمان اس لقب سے فاصلہ رکھیں۔ اس طرح انہیں قدامت پسندوں کے زبانی حملوں کا بھی کم سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں ایکٹویسٹ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ ویسے بھی پاکستانی لباس میں اور اپنی سفید اور بھوری داڑھی کے ساتھ سب سے منفرد لگتے ہیں۔"
ہیرمان کا حلیہ دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ فقط دو برس قبل مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کے سر پربندھا صافہ اور ان کا لباس یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ان کے ساتھ ایک طویل مدت سے جی رہے ہیں۔ ہیرمان کہتے ہیں کہ یہ لباس انہیں "مشرق" سے جوڑتا ہے اور لباس کی وجہ سے بھی لوگ ان سے گفت گو کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ گفت گو شروع ہو تو دلائل سے اپنی سمجھائی جا سکتی ہے۔
مصنف: آنا فریس، ع ت /ع ا (قنطرہ)