جرمنی میں ہم جنس پرستوں کی خاطر کیتھولک چرچ نے قانون بدل دیا
23 نومبر 2022جرمنی میں کیتھولک چرچ نے جنس کی بنیاد پر تفریق برتنے کے خاتمے کے لیے اپنے لیبر قوانین میں اہم تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے۔
جرمن کیتھولک پادریوں نے ہزاروں بچوں کا جنسی استحصال کیا، رپورٹ
گزشتہ برس کیتھولک چرچ میں کام کرنے والے تقریبا ً125 ملازمین چرچ کے قوانین کے مطابق ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے بطور احتجاج متحد ہو کر سامنے آئے تھے اور اس کے تقریباً ایک سال بعد منگل کے روز چرچ نے ملازمت سے متعلق اپنے قانون میں تبدیلی کا اعلان کیا۔
اطالوی پادریوں کے ہاتھوں نابالغوں کا جنسی استحصال
ابھی تک جن اصول و ضوابط پر عمل ہوتا آیا تھا، اس کے تحت کیتھولک چرچ کے ملازمین اگر ہم جنس پرست ہونے کا کھل کر اعلان کر دیں یا پھر طلاق کے بعد دوبارہ شادی کر لیں، تو وہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہو سکتے تھے۔
تاہم منگل کے روز جرمن بشپس کانفرنس نے اعلان کیا، ''واضح طور پر، جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا، چرچ کے اداروں میں بھی تنوع کو ایک بہتری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔''
اعلان میں مزید کہا گیا کہ ''تمام ملازمین آزادانہ طور پر اپنے ٹھوس فرائض کے ساتھ، اپنی اصلیت، اپنے مذہب، اپنی عمر، اپنی معذوری، جنس، اپنی جنسی شناخت اور اپنے طرز زندگی کے بارے'' میں پرواہ کیے بغیر، ایسے چرچ کے نمائندے ہو سکتے ہیں جو ''لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔''
اس میں مزید کہا گیا ''جب تک یہ لوگ مقدس انجیل کے پیغام کی تئیں مثبت رویہ رکھتے ہیں اور مسیحی کردار کا احترام کرتے ہیں '' ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔
اصلاحات کے لیے دباؤ
جرمن کیتھولک کی مرکزی کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام کافی دنوں سے زیر غور تھا۔ جرمنی میں کیتھولک خواتین کی کمیونٹی نے ان اصلاحات کو ''سنگ میل'' قرار دیا۔
لیکن روایتی قانون کے ایک ماہر تھامس شولر نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ چرچ نے یہ فیصلہ ''ریاست کی لیبر عدالتوں کی وجہ سے کیا ہے''، جو طویل عرصے سے ذاتی طرز زندگی کے حوالے سے چرچ کے لیبر قانون کو ترجیح دینے کے معاملے پر سوالات اٹھا رہی تھیں۔
چرچ کے ایک ایڈوکیسی گروپ ''وی آر چرچ'' سے تعلق رکھنے والے کرسچن ویسنر نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ''شاید عملے کی کمی کی وجہ سے بھی ایسا کیا گیا ہو۔''
ص ز/ج ا (ڈی پی اے، اے پی، کے این اے)