جرمنی یوکرین کو بھاری ہتھیار کیوں مہیا نہیں کر رہا؟
25 اپریل 2022برلن میں چانسلر شولس کی قیادت میں وفاقی جرمن حکومت اس حوالے سے کئی وجوہات کی نشاندہی کر چکی ہے کہ وہ یوکرین کو بھاری ہتھیار کیوں مہیا نہیں کر رہی۔ لیکن جرمن حکومتی موقف کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا یہ وجوہات واقعی قائل کر دینے والی ہیں؟
جرمن اتحادیوں کا رویہ
یوکرین کی جنگ کے آغاز سے چانسلر اولاف شولس مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ برلن حکومت مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین میں اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ قریبی اشتراک عمل سے ہی سارے فیصلے کرتی ہے۔ چند روز قبل اولاف شولس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یوکرین کو تو کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک بھی وہی ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، جو جرمنی کر سکتا ہے۔
روس جنگی مقاصد میں ناکام جبکہ یوکرین کامیاب ہو رہا ہے،بلنکن
گزشتہ ہفتے کے اواخر میں امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ یوکرین کو تقریباﹰ 800 ملین ڈالر کی نئی فوجی امداد دے گا، جس میں بھاری توپ خانہ بھی شامل ہو گا۔ یوں چوبیس فروری کے دن روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے کییف کے لیے زیادہ تر عسکری نوعیت کی امریکی امداد کی مجموعی مالیت تین بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔
اس کے برعکس فروری کے اواخر سے اپریل کے شروع تک جرمنی نے یوکرین کے لیے اس کے فوجی دفاع کی خاطر جس امداد کا اعلان کیا، اس کی مالیت تقریباﹰ 186 ملین یورو بنتی ہے۔ اس امداد میں مارٹر، فضائی دفاعی راکٹ سسٹم، مشین گنیں اور گولہ بارود کے علاوہ فوجی حفاطتی سامان بھی شامل ہے، مگر کوئی بھاری ہتھیار نہیں۔
چانسلر شولس کا دوہرا پیغام
جنوبی جرمن شہر میونخ میں وفاقی جرمن فوج کی یونیورسٹی کے دفاعی اور سکیورٹی امور کے پروفیسر کارلو ماسالا کہتے ہیں کہ چانسلر شولس کی حکمت عملی کے ذریعے دیے جانے والے پیغامات دو ہیں۔ ایک تو روس کے لیے اور دوسرا خود جرمن عوام اور شولس کی اپنی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے۔
فیکٹ چیک: روس اور یوکرین کی جنگ میں فیک نیوز کا تجزیہ
پروفیسر ماسالا کہتے ہیں، ''چانسلر شولس کو ان تمام افراد کی طرف سے حمایت کی ضرورت ہے، جو یہ سوچتے ہیں کہ یوکرین کو کوئی بھاری ہتھیار اس لیے فراہم نہیں کیے جانا چاہییں کیونکہ یوں نہ صرف روسی یوکرینی جنگی تنازعہ شدید ہو جائے گا بلکہ خود جرمنی بھی روسی کارروائیوں کے نشانے پر ہو گا۔‘‘
تشویش کافی حد تک بجا
جرمنی کی یہ تشویش اگرچہ کافی حد تک بجا ہے تاہم یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جرمنی کے کئی مغربی اتحادی ملک مثلاﹰ امریکہ، برطانیہ اور نیدرلینڈز تو یوکرین کو بھاری ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ یہی بات حال ہی میں یوکرینی پارلیمان کی ایک رکن لیزیا واسیلینکو نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں بھی لکھی تھی۔
جنگ کے دوران اعلیٰ امریکی حکام کا پہلا دورہ یوکرین
امریکہ نے تو ابھی پچھلے ہفتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین کو 11 ہیلی کاپٹر، 200 بکتر بند گاڑیاں اور توپوں سے فائر کیے جانے والے تقریباﹰ 40 ہزار گولوں کے علاوہ مزید کئی ایسے ہتھیار بھی فراہم کرے گا، جو سب کے سب بھاری اسلحے کے زمرے میں آتے ہیں۔
جرمن فوج اپنی صلاحیتوں کی حدوں پر
جرمنی یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ یوکرین کو مزید کوئی عسکری امداد اس لیے مہیا نہیں کر سکتا کہ یوں وہ خود اپنی دفاعی ذمے داریاں پورا کرنے کی حالت میں نہیں رہے گا۔ اس بارے میں وفاقی جرمن فوج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل مارکوس لاؤبن تھال نے حال ہی میں ملکی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اپنی وفاقی فوج کے کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے قابل رہنے کے لیے خود ہمیں بھی دفاعی نظاموں کی ضررت ہے۔‘‘
یوکرینی سفیر کا موقف
برلن میں یوکرین کے سفیر آندرے میلنِک ان یوکرینی اہلکاروں میں شمار ہوتے ہیں، جو جرمنی پر سب سے زیادہ تنقید کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا، ''یہ دعویٰ، کہ وفاقی جرمن فوج یوکرین کو مزید عسکری امداد مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، قطعی ناقابل فہم ہے۔‘‘
روسی یوکرینی جنگ ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے، جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ
یوکرینی سفیر کے مطابق جرمن فوج کے پاس موجود مارڈر نامی تقریباﹰ 400 جدید ترین جنگی ٹینکوں میں سے اس وقت 100 کے قریب ٹینک فوجیوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور یہ سو ٹینک تو جرمنی یوکرین کو فوری طور پر مہیا کر ہی سکتا ہے۔
کیا یوکرینی فوجی جرمن ٹینک استعمال کر سکیں گے؟
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوجی صرف وہی جنگی ٹینک بخوبی استعمال کر سکتے ہیں، جن کا انہیں اچھی طرح عسکری تجربہ ہے۔
پروفیسر کارلو ماسالا کے مطابق یوکرین میں فیڈرل جرمن آرمی کے جدید ترین ٹینکوں کے مناسب استعمال سے متعلق برلن حکومت کے موقف میں کافی وزن ہے اور یہ تشویش بجا ہے کہ یوکرینی فوجی جرمنی کے مارڈر ٹینکوں کو مؤثر طور پر استعمال نہیں کر سکیں گے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یوکرینی فوج کے پاس ان انتہائی جدید ٹینکوں کو استمعال کرنے، ان کی دیکھ بھال کا اور خرابی کی صورت میں پرزوں کی تبدیلی کا کوئی بنیادی ڈھانچہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
برلن کا جواب: اور زیادہ مالی وسائل
جرمن چانسلر شولس کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے یوکرین کو ایک بلین یورو سے زائد کے مالی وسائل مہیا کیے ہیں، تاکہ وہ جرمنی سے اپنے لیے ہتھیار خرید سکے۔
روسی سرماٹ میزائل کیا ہیں اور یہ کتنے خطرناک ہیں؟
برلن حکومت ان رقوم سے فضائی دفاعی راکٹ نظام اور گولہ بارود خریدے کی اجازت تو دیتی ہے مگر وہ جرمنی سے یوکرین کو ان جنگی طیاروں اور جنگی ٹینکوں کی فروخت کی حامی نہیں، جن کا مطالبہ کییف حکومت کر رہی ہے۔
سلووینیا کے ساتھ تبادلے کی پیش کش
جرمن حکومت اس وقت جس ایک اور امکان پر کام کر رہی ہے، وہ یورپی ملک سلووینیا کے ساتھ جنگی ٹینکوں کے تبادلے کا رستہ ہے۔ سلووینیا نیٹو کا رکن ملک ہے اور برلن حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اگر سلووینیا اپنے سوویت یونین کے دور کے جنگی ٹینکوں میں سے کچھ یوکرین کو مہیا کرے، تو ان کی کمی پورا کرنے کے لیے جرمنی جواباﹰ سلووینیا کو اپنے جدید ترین مارڈر ٹینکوں میں سے کچھ مہیا کر سکتا ہے۔
رابرٹ مج (م م / ع س)