جرمن اسلحے کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ
24 جنوری 2018سن 2014 سے لے کر سن 2017 کے دوران جرمنی میں تیار کردہ اسلحے کی فروخت کی مالیت 25 بلین یورو یا 30 بلین ڈالر سے زائد رہی ہے۔ سن 2009 سے سن 2013 کے عرصے کے چار برسوں کے مقابلے میں اگلے چار سالوں کے دوران جرمن اسلحے کی مانگ میں اکیس فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دہشت گرد گروپوں کے پاس جرمن رائفلیں کیسے پہنچیں؟
امریکا مشرق وسطٰی میں تنازعات کو بھڑکا رہا ہے، جرمنی
جرمن سیاسی جماعتیں ملک سے جوہری ہتھیار ہٹانے کی خواہاں
جرمن شہریوں کو ہتھیار رکھنے کا ’حق‘ ملنا چاہیے، مہاجرین مخالف جماعت
اعداد و شمار کے مطابق مغربی دفاعی اتحاد کے غیر رکن ملکوں میں جرمن ہتھیاروں کی فروخت غیر معمولی رہی اور یہ اضافہ 47 فیصد تک رہا۔ ان ہتھیاروں کی فروخت سے جرمن خزانے میں ساڑھے چودہ ارب یورو داخل ہوئے۔ سابقہ چار برسوں کے دوران جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کیے رکھی۔
گزشتہ عرصے میں ہتھیاروں کی فروخت کی پالیسی کو موجودہ وزیر خارجہ زیگمار گابریل کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ وہ مخلوط حکومت میں پہلے اقتصادیات کے وزیر تھے اور بعد میں انہوں نے فرانک والٹر اشٹائن مائر کے صدر بننے کے بعد وزارت خارجہ کے نگران وزیر کا قلمدان سنبھالا۔
جرمنی نے سن 2015 سے سن 2013 کے تین سالہ عرصے میں اوسطًا ہر سال 6.3 ارب ڈالر کے ہتھیار اور دفاعی نوعیت کا سامان فروخت کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ حکومت سازی کے جاری مذاکرات کے ابتدائی ادوار میں جرمن اسلحے کی فروخت بھی ایک اہم معاملہ خیال کیا گیا ہے۔
اپوزیشن سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یمن جنگ میں ملوث ممالک کو جرمن ہتھیاروں کی فروخت پر تحفظات رکھتی تھی۔ اسی باعث جرمن حکومت نے فوری طور پر ایسے ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت روک دی ہے، جو یمن کی جنگ میں شریک ہیں۔ برلن حکومت کے اس فیصلے کو خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔
جرمنی کی فیڈرل سکیورٹی کونسل نے یمنی جنگ میں شریک ممالک کو اسلحے کی فروخت کی مزید اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جرمن ہتھیاروں کے اہم خریداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک عسکری اتحاد قائم ہے اور اُس میں دوسرے ملکوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔