جرمن خواتین کی نگاہ میں ایران
18 جون 2009مغرب میں ایران کا جو امیج ہے، وہ کافی حد تک منفی ہے۔ مثلاً مغربی میڈیا میں زیادہ تر رپورٹنگ ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام، مغرب مخالف ایرانی صدر محمود احمدی نژاد یا آزادیء رائے پر پابندی اور خواتین کے حقوق کی پامالی جیسے موضوعات کے بارے میں ہوتی ہے۔ تاہم تقریباً تیس ایسی جرمن خواتین، جنہوں نے ایران میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں فعال کردار ادا کیا ہے اور وہاں کے معاشرے میں رہ کر حقیقت کو نزدیک سے دیکھا ہے، ایرانی معاشرے کو مختلف زاویہء نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے تجربات کو ایک دلچسپ کتاب One way Ticket To Tehran میں یکجا کیا ہے۔
لورا ہورسٹمن ایک صحافی ہیں- ان کے شوہر سفارتکار ہیں جن کی خاطر لورا نے اپنا صحافت کا پیشہ ترک کر دیا- گزشتہ ڈیڑھ برس سے یہ میاں بیوی تہران میں آباد ہیں- تیس سالہ لورا کو خود کو مکمل طور پر ایران کے نئے ماحول میں ڈھالنا پڑا۔ لورا فارسی زبان سے نابلد تھیں اور وہ ماں بننے والی تھیں۔
’’جب کوئی جرمنی سے آیا ہو تو وہ اس بات کاعادی ہوتا ہے کہ جہاں اور جب جی چاہے چل پڑو اورجرمنی میں رستوں کی نشاندہی بھی بہت اچی طرح ہوتی ہے۔ یہاں تہران کی سڑکیں اور رستے پیچیدہ لگتے ہیں، اتنی زیادہ ٹریفک جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کبھی کبھی تو نصف کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے 40 منٹ سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ ایسے میں زبان کا جاننا اور گاڑیوں کے بیچ میں سے جگہ بناتے ہوئے آگے بڑھنے کا فن آنا، یہ سب کچھ بہت ضروری ہے، سب سے بڑھ کر ایرانی باشندوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا ڈھنگ آنا ضروری ہے۔‘‘
لورا ہورسٹمن شروع شروع میں اپنی اولاد کو ایران میں جنم دینے کے عمل سے گھبرا رہی تھیں- تاہم انہیں نہایت مثبت تجربہ ہوا- ہسپتال کا معیار، ڈاکٹروں کی پیشہ ورانہ مہارت غرض کسی لحاظ سے بھی یہ سب کچھ برلن کے طبی مراکز اور ڈاکٹروں سے پیچھے نہیں تھا۔
لورا کے مقابلے میں آنیا یاکوبی کا تجربہ کچھ مختلف ہے- آنیا ایک پروٹسٹنٹ پادری کی بیوی ہیں- ایک بار وہ تیراکی کے لئے ایک سوئمنگ مرکز میں گئیں، جہاں خواتین اور مردوں کے لئے تیراکی کا الگ الگ بندوبست تھا- ان کا ٹکٹ ان کے شوہر کے پاس تھا۔ خاتون ٹکٹ چیکرنے انہیں دروازے پر روک لیا اور ٹکٹ طلب کر لیا۔ 45 سالہ آنیا کو کافی غصہ آیا اور وہ اپنے تیراکی کے لباس میں ملبوس مردوں کے سوئمنگ مرکز کی طرف، اپنے شوہر سے ٹکٹ لینے کے لئے بڑھنے لگیں- بس پھرتوغضب ہوگیا۔ انہیں خاتون گارڈز کی گرجدار آوازسنائی دی۔
’’میں پانچ سالوں سے ایران میں رہ رہی ہوں، مجھ میں کافی بہادری آ گئی ہے- میں 40 ڈگری درجہء حرارت میں بھی اگر دودھ لینے کے لئے بھی باہر نکلتی ہوں تو لمبے ٹراؤزر کے اوپر ایک لمبا سا کوٹ اور ہیڈ اسکارف پہن کرجاتی ہوں، میں ایک غیرملکی ہوں اورمیں کسی کے بھی جذبات مجروح نہیں کرنا چاھتی- کبھی کبھی میں گھبرا جاتی ہوں اورمیرا دل کہنے لگتا ہے کہ اس سے زیادہ میں خود کو نہیں بدل سکتی۔‘‘
ایران میں ایسی جرمن خواتین بھی زندگی بسر کر رہی ہیں، جنھوں نے ایرانی مردوں سے شادی کی ہے۔ ایسی ہی ایک جرمن خاتون ISOLDE SAMII ، 1972ء سے ایران میں آباد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے: ’’ایرانی معاشرہ کئی اعتبار سے بہت کُشادہ دل ہے، جب دیگر معاشروں کی خواتین ایرانی عورتوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان سے بات چیت کریں تو بہت سے ایسے موضوعات جنہیں عام طور پر ٹابو سمجھا جاتا ہے، ان کے بارے میں ایرانی خواتین سے گفتگو کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت اُس سے مختلف ہے، جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘
جرمن خواتین کا خیال ہے کہ عورتوں کی محض خواتین کے ساتھ صحبت زیادہ دلچسپ اورفائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ 38 سالوں سے ایران میں آباد ایک ایرانی کی شریک حیات اور فنکارہHelena Von Schell کہتی ہیں: ’’مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے، ان عورتوں کے ساتھ رہنا، یہ ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ میں نے غیر مخلوط یعنی محض عورتوں کی محفلوں کے فوائد کی قدر کرنا سیکھ لیا ہے۔ میں اس امر کو ہرگز پابندی نہیں سمجھتی کہ میں کسی مرد کے ساتھ کافی پینے کے لئے نہیں جا سکتی۔‘‘
یہ جرمن عورتیں ایرانی ثقافت کی مہمان نوازی سے بے حد متاثر ہیں۔ جرمن ایران صنعت و تجارت کے چیمبر کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی بیگم Anette Bernbeck کا کہنا ہے:’’جب انسان جرمنی سے ایران آئے تو شروع شروع میں بے حد شرمندگی اور خجالت محسوس ہو تی ہے، ایرانیوں کی بے حد ملنساری اور مہمان وازی کی وجہ سے۔ نہ یہ مجھے پہلے سے جانتے تھے، نہ ہی انھوں نے ہمیں پہلے کبھی دیکھا تھا، میں ایک غیر ملکی ہوں، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کہاں سے آئی ہوں، انہیں اس کی پرواہ بھی نہیں۔ یہ سب کچھ میرے لئے بہت ہی تعجب خیز ہے، میں تقریباً ایک سال سے یہاں رہ رہی ہوں اور مجھے یہ حسن سلوک ہر روز نئے سرے سے حیران کر دیتا ہے۔‘‘
One way Ticket To Tehran کے عنوان سے کتاب شائع کرنے والی یہ جرمن خواتین اپنی خوشی اور مرضی سے ایران جا کر زندگی بسر کر رہی ہیں اور انکا کہنا ہے کہ انہیں ایران کی روزمرہ زندگی، ثقافت اور معاشرہ بہت اچھا لگتا ہے۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر