1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فٹ بال، خواتین کھلاڑیوں کی مشکلات

23 جون 2011

جرمن فٹ بال فیڈریشن کے ساتھ میڈیا کی بھی کوشش ہے کہ جرمنی میں اتوار سے شروع ہونے والے خواتین کے ورلڈ کپ مقابلوں کو ہر لحاظ سے دلکش بنایا جائے تاہم دوسری طرف خواتین کی جرمن فٹ بال ٹیم صنفی امتیاز کا شکار نظر آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/11i8q
جرمنی میں فٹ بال مردوں کا کھیل سمجھا جاتا ہےتصویر: Fotolia/P.Atkins

خواتین کی جرمن فٹ بال ٹیم دو مرتبہ عالمی کپ مقابلوں میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ اس نے ہر طریقے سے خود کو منوا رکھا ہے اور اس مرتبہ بھی وہ ورلڈ کپ جیت کر تیسری مرتبہ یہ اعزاز اپنے نام کر سکتی ہے۔ تاہم ان حقائق کے باوجود جرمن فٹ بال فیڈریشن DFB اور میڈیا کی یہ کوششیں کہ اگلے عالمی کپ مقابلوں میں دلچسپی لینے کے لیے زیادہ سے زیادہ شائقین کو اس طرف مائل کیا جا سکے، کارگر ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔

اس مخصوص صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد جرمن سپورٹس یونیورسٹی سے وابستہ دانیئلہ شاف کہتی ہیں کہ فٹ بال مردوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے جب خواتین فٹ بال کے میدان میں اترتی ہیں تو انہیں وہ پذیرائی نہیں ملتی، جو انہیں ملنی چاہیے۔ جرمنی میں ویمنز فٹ بال کی مقبولیت کے حوالے سے کام کر رہی، شاف کی ٹیم نے کئی انکشافات کیے ہیں۔ شاف کہتی ہیں کہ جرمنی میں مردوں کے مقابلوں کی تشہیر بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور بنڈس لیگا یعنی فیڈرل جرمن فٹ بال لیگ کے میچ دیکھنے کے لیے بھی شائقین کی ایک بڑی تعداد اسٹیڈیمز کا رخ کرتی ہے۔

Frauenfußball-WM 2011
جرمن ٹیم اس مرتبہ بھی فیورٹ قرار دی جا رہی ہےتصویر: DW

تاہم دوسری طرف خواتین کے ایسے ہی مقابلوں میں تشہیر کا عنصر حیرت انگیز طور پر کم ہے۔ ان کے بقول خواتین کے مقابلے دیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈھائی سو شائقین ہی اسٹیڈیم جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک فٹ بال کو مقامی سطح پر مناسب مقام نہیں دیا جائے گا، تب تک عالمی سطح کے مقابلوں میں بھی زیادہ سے زیادہ شائقین کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔

دانیئلہ شاف کے مطابق بالخصوص فٹ بال کے گراؤنڈ میں خواتین کو صنفی امتیاز کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جرمن سپورٹس ایڈیٹوریل سیکٹر میں 92 فیصد کام کرنے والے افراد مرد ہیں اور اس حوالے سے رپورٹنگ کرتے وقت وہ خواتین کی نمائندگی کرنا بھول جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جرمنی میں کھلیوں کے حوالے سے خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کے لیے ضروری ہے کہ انتظامی طور پر تبدیلیاں لاتے ہوئےاعلیٰ عہدوں پر خواتین کی نمائندگی کو بھی ممکن بنایا جائے۔

Deutschland - Norwegen
جرمنی اور ناروے کے ٹیمیں نمائشی میچ کے دورانتصویر: picture alliance / dpa

شاف کے بقول خواتین کے فٹ بال کو ملک میں دلکش اور معروف بنانے کے لیے پالیسی سطح پر کوششیں ناگزیر ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کھلاڑیوں کے بارے میں لوگوں کو معلومات فراہم کرنی چاہییں۔ وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں خواتین کھلاڑیوں کے بارے میں کافی لوگ جانتے تھے لیکن اب نوجوان خواتین کھلاڑی معروف نہیں ہیں اور اسی لیے لوگ اس کھیل پر زیادہ دھیان دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

ان تمام حقائق کے باوجود جرمنی اور ناروے کی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیموں کے مابین 16 جون کو ہونے والے ایک نمائشی میچ کو5.7 ملین شائقین نے دیکھا۔ جرمن فٹ بال فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اگر موسم اچھا رہا، تو جرمنی میں 26 جون سے شروع ہونے والے خواتین کے ورلڈ کپ فٹ بال مقابلوں کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسٹیڈیمز کا رخ کرے گی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک